مضامین

محمد بن سلمان اور بادشاہت کی مشق

تحریر: عباس سید میر

سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز گذشتہ ہفتے ایک ماہ کیلئے مراکش کے تفریحی مقام "طنجہ” چلے گئے ہیں۔ ان کی روانگی کے وقت تمام سعودی حکام نے سرکاری طور پر انہیں الوداع کہا۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مراکش روانگی سے قبل سلطنتی حکم کے ذریعے اپنے تمام تر اختیارات عارضی طور پر اپنے بیٹے اور ولیعہد محمد بن سلمان کو سونپ دیئے۔ اس طرح ان کی غیر موجودگی میں محمد بن سلمان ہی ملک کو چلائیں گے۔ یہ درحقیقت محمد بن سلمان کی بادشاہت کی مشق قرار دی جا رہی ہے تاکہ وہ اس طرح سعودی عرب کی باگ ڈور سنبھالنے میں درپیش رموز اور باریکیوں سے اچھی طرح آشنا ہو سکیں۔ جب تک سعودی فرمانروا ملک سے باہر ہیں ولیعہد محمد بن سلمان وزرا کونسل کی سربراہی سنبھالیں گے۔ یوں اس کونسل میں پیش کی جانے والی رپورٹس کی روشنی میں وہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی میدانوں میں ملک کی بنیادی پالیسی بھی وضع کریں گے۔

چونکہ اس سے پہلے سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اپنے بیٹے محمد بن سلمان کی جانشینی کے مقدمات فراہم کر چکے ہیں لہذا ملک کی باگ ڈور سنبھالنا محمد بن سلمان کیلئے زیادہ مشکل کام نہیں ہو گا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مختلف مراحل کے ذریعے اپنے بیٹے اور ولیعہد محمد بن سلمان کے تمام حلیفوں کو یکے بعد دیگرے اہم عہدوں سے برطرف کر کے ان کیلئے سیاست کا میدان خالی کر دیا ہے۔ دوسری طرف شاہ سلمان نے ان تمام اہم عہدوں پر محمد بن سلمان کے وفادار افراد کو تعینات کیا ہے۔ اگرچہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز تمام ملکی امور اپنے بیٹے کے سپرد کر کے چلے گئے ہیں لیکن وہ دور سے 31 سالہ محمد بن سلمان کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور ضرورت پڑنے پر انہیں مناسب رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ملک میں غیر موجودگی کی مدت میں شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ تمام تر توانائیاں صرف کر کے گڈ گورننس ثابت کریں تاکہ اس طرح رائے عامہ کی حمایت حاصل کر سکیں اور محمد بن سلمان کی محبوبیت میں اضافہ ہو سکے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امر میں سعودی میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ سعودی میڈیا کی جانب سے مستقبل کے سعودی فرمانروا محمد بن سلمان کے بیانات اور فیصلوں کو بھرپور کوریج دی جائے گی اور انہیں خوبصورت انداز میں پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح خطے اور دنیا کے ذرائع ابلاغ بھی اس بات کے مشتاق ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد کی غیر موجودگی میں کس طرح ملک چلاتے ہیں اور قطر سے تعلقات میں تناو سمیت ریاض کو درپیش دیگر چیلنجز کا کس انداز میں مقابلہ کرتے ہیں۔

یہاں اس نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنا محمد بن سلمان کیلئے سب سے بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ سابق ولیعہد محمد بن نایف اپنی رہائش گاہ میں نظر بند ہیں اور محمد بن سلمان کے دیگر سیاسی مخالفین بھی شدید سیکورٹی محدودیتوں کا شکار ہیں لیکن سعودی شاہی خاندان کے اندر سے ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سلطنتی خاندان محمد سلمان کی "خاموش مخالفت” کرنے میں مصروف ہے۔ سعودی سلطنتی خاندان کے قریبی ذرائع سے موصول ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے اپنی ولیعہدی اور محمد بن نایف کی برطرفی کے بارے میں موثر سلطنتی شخصیات کو اعتماد میں لینے کی وسیع کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے مرحلہ وار طاقت کی سیڑھیاں طے کرنے کا عمل امریکی اور مغربی حکام کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ ہیڈسن انسٹی ٹیوٹ میں سرگرم عمل میکس سینجر نے جب ان کے پاس امریکی وزارت خارجہ میں اہم ذمہ داری تھی ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکی حکومت کو چاہئے کہ وہ سعودی عرب میں ابھرنے والے جوان رہنماوں کی حمایت کرے۔ لہذا مغربی ممالک کی جانب سے سعودی عرب میں جوان رہنماوں کی حمایت پر مبنی پالیسی اختیار کئے جانے کے ساتھ ہی سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے محمد بن سلمان کی طاقت میں اضافے کے مقدمات فراہم کرنا شروع کر دیئے۔ جب 2003ء میں محمد بن سلمان نے سعودی حکومت میں پہلا عہدہ سنبھالا تو وہ ایک گمنام شخصیت کے مالک تھے لیکن 2015ء میں اپنے والد کی جانب سے وزیر دفاع منصوب کئے جانے کے بعد وہ ایک جانی پہچانی شخصیت میں تبدیل ہو گئے۔ محمد بن سلمان نے اپنے والد کی مدد سے طاقت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دیں اور اس کام میں انہیں امریکی حکام کی حمایت بھی حاصل تھی۔

جب محمد بن سلمان سعودی عرب کے نائب ولیعہد تھے انہوں نے اپنے والد کی جانب سے امریکہ کا دورہ کیا اور واشنگٹن سے اپنے ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اسلحہ کی ڈیل پر دستخط کے مقدمات فراہم کئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب دورے میں اس معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اس معاہدے کے بعد ہم نے دیکھا کہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا نیا ولیعہد بنا دیا گیا۔ محمد بن سلمان کی جانب سے ایران کے خلاف شدید بیان بازی، شام حکومت کے خلاف سرگرمیاں، اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا عندیہ اور یمن کے خلاف جنگ جیسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ امریکہ نواز پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ بہرحال، سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی سعودی عرب میں غیر موجودگی کی مدت محمد بن سلمان کیلئ
ے انتہائی اہم تصور کی جا رہی ہے اور ان کیلئے فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر انہوں نے اس مدت میں گڈ گورننس کا مظاہرہ کیا اور رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ سعودی فرمانروا اسی سال کے آخر تک اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے اور ملک کی باگ ڈور اپنے جوان بیٹے اور ولیعہد کے سپرد کر دیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button