حج ابراہیمی ؑ اور امام خمینیؒ
تحریر: ثاقب اکبر
جوں جوں ایام حج نزدیک آ رہے ہیں امام خمینیؒ زیادہ یاد آرہے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہر دور میں اسلامی دانشوروں اور علماء نے حقیقت حج کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے۔ عرب و عجم میں ایسے بہت سے مسلمان مفکرین و صلحاء گزرے ہیں جنھوں نے حج کی معنویت و حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو متوجہ کیا کہ حج فقط چند مناسک اور اعمال کا نام نہیں بلکہ یہ عظیم الٰہی اجتماع دین اسلام کی عظمت کو آشکار کرتا ہے۔ یہ انسانی مساوات کا عملی سبق دیتا ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کی اس اہمیت کو آشکار کرتا ہے جو اسلام نے انھیں عطا کی ہے۔ حج دین کی آفاقی تعلیمات کا ترجمان ہے۔ یہ شیطان و طاغوت کے خلاف مسلمانوں کے عزم جہاد کا نقیب ہے۔ توحید پرستی کا سمبل ہے اور اللہ کے راستے میں ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی کی ایران میں عظیم کامیابی کے بعد عالمی طاغوت و استعمار کے لیے جس جہاد کا تصور سامنے آیا اس میں حج جیسے عظیم اجتماع کی اہمیت و افادیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایران میں انقلاب سے پہلے بھی بہت سے مفکرین حج کی عظمت و حقیقت کو واضح کرنے کے لیے زبان و قلم سے جدوجہد کرتے چلے آئے تھے۔ ان انقلابی مفکرین میں ڈاکٹر علی شریعتی شہید بھی شامل رہے۔ ان کی ایک ضخیم کتاب ’’حج‘‘ اس کی ترجمان ہے تاہم امام خمینی کو اللہ نے جو روحانی و سیاسی مقام بخشا اس کے پیش نظر آپ کے پیغام و فکر کی تاثیر بھی بے پناہ تھی۔ آپ ایک ایسے منصب پر فائز ہوئے کہ جس کے پیش نظر پیغام کی قوت ابلاغ کے ساتھ ساتھ اس کی عملی شکل بھی سامنے آنا شروع ہو گئی۔ دوسری طرف انسان دشمن عالمی نظام کے سردار اور ان کے آلۂ کار کیسے اجازت دے سکتے تھے کہ حج کی یہ ماہیت آشکار ہو اور پھراس کے اظہار کے لیے سرزمین حرمین کو استعمال کیا جائے۔ انھوں نے اسے روکنے کے لیے ایکا کر لیا اور اسے ہر قیمت پر روکنے پر کمر بستہ ہو گئے، پھر کیا ہوا اور کیسے حرم امن الٰہی حاجیوں کے خون سے رنگین ہوا تاریخ اس کے راز ضرور کچھ عرصے بعد اپنے سینے سے اگل دے گی۔ ہم البتہ ذیل میں امام خمینی کے چند اقوال درج کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کا حج برپا کرنا چاہتے تھے اور حج کے مختلف اعمال میں ان کی نظر میں کیا کیا سبق پنہاں تھا۔ ویسے تو حج کے حوالے سے ان کے پیغامات اور خطابات کو کتابی شکل میں شائع کیا جا چکا ہے، ہم مضمون کی گنجائش کے مطابق چند عبارات نذر قارئین کرتے ہیں:
O حج بیت اللہ انسانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے اور گھر کے مالک سے مربوط کرنے کے لیے ہے اور حج صرف اعمال، دعاؤں اور الفاظ کا ایک سلسلہ نہیں ہے۔
O حج بیت اللہ الٰہی تعلیمات کے دل میں موجود ہے جن سے آدمی کو زندگی گزارنے کے تمام پہلوؤں پر مبنی اسلام کی پالیسی کو تلاش کرنا چاہیے۔
O حج بیت اللہ توحیدی انسان کو منظم کرتا ہے، مشق کرواتا ہے اور اسے ثابت قدم بناتا ہے۔
O حج بیت اللہ مسلمانوں کی مادی، روحانی اور مخفی صلاحیتوں کے اظہار کا مقام ہے۔
ہم اس بڑے غم کوکہاں لے جائیں کہ حج بیت اللہ کو قرآن عظیم کی طرح ہی ناشناس اور مہجور بنا دیا گیا ہے۔۔۔ دسیوں لاکھ مسلمان ہر سال حج کو جاتے ہیں اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت حاجرہ کے نقش ہائے مبارک پر قدم رکھتے ہیں پھر بھی کوئی اپنے آپ سے یہ نہیں پوچھتا کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت محمدؐ کون تھے؟ انھوں نے کس کام کی تکمیل کی تھی اوران کا مقصد کیا تھا؟ وہ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ واحد چیز ہے جس کے متعلق مسلمان حج کے دوران میں نہیں سوچتے۔
O مسلمان محققین کو چاہیے کہ وہ فلسفہ حج کو درست طور پر پیش کریں، اس کی وضاحت کریں اور توہمات و انحرافات سے چھٹکارا حاصل کریں جو بادشاہوں سے وابستہ جعلی علماء نے پیدا کر رکھے ہیں۔
O مسلمان مکہ معظمہ جو ایسا مقام ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اجتماع کے لیے مرکز قرار دیا ہے، میں جمع تو ہوتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ وہ کیا کررہے ہیں، وہ اس سے اسلامی فائدہ نہیں اٹھا پاتے، اس سیاسی مرکز کو ایسے امور میں تبدیل کردیا گیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے تمام مسائل غفلت کا شکار ہو گئے ہیں۔
O مسلمان اگر حج کی حقیقت کو سمجھ لیں اور اسلام کی طرف سے حج میں جو سیاست اختیار کی گئی ہے صرف اسی کو جان لیں تو حصول استقلال و آزادی کے لیے کافی ہے لیکن افسوس ہم نے اسلام کو کھو دیا ہے۔
O حج کے تمام پہلوؤں میں سب سے زیادہ غفلت اور لاپرواہی کا شکار ان عظیم مناسک کا سیاسی پہلو ہے۔ خیانت کاروں کی سب سے زیادہ کوشش اس امر سے غافل کرنے میں رہی ہے اور رہے گی کہ اس کا یہ پہلو کسی گوشے میں بند ہو جائے۔ آج کے دور میں جب جنگل کا قانون چل رہا ہے ماضی کی نسبت مسلمانوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پہلو کے بارے میں اظہار نظر کریں اور اس سے متعلق ابہامات دور کریں کیونکہ بین الاقوامی سیاسی کھلاڑی مسلمانوں کو غافل اور پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ مفاد پرست حکمران، نادان اور غفلت زدہ افراد درباری و کج فہم ملا اور جاہل عابد سب دانستہ یا نادانستہ مل کر اس تقدیر ساز اور مظلوموں کے نجات دہندہ پہلوکو ختم کردینے کے درپے ہیں۔
O یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر اس عظیم عالمی اجتماع میں جہاں اسلامی اقوام کے مظلوم اور ہر مکتب، قوم، زبان، فرقے، رنگ اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات ایک جیسے لباس میں ہر قسم کی
تصنع اور بناوٹ سے پاک ہو کر اکٹھے ہوتے ہیں، اسلام، مسلمانوں اور دنیا کے تمام مظلوموں کے بنیادی مسائل حل نہ ہوں اور ظالم و جابرحکومتوں سے نجات پانے کی کوئی سبیل نہ کی جائے تو پھر چھوٹے علاقائی اور لوکل اجتماعات سے کچھ نہ بن پڑے گا اور کوئی ہمہ گیر راہ حل ہاتھ نہ آئے گا۔
O فریضہ حج حق کی آواز پر لبیک کہنے اور حق تعالیٰ کی طرف ہجرت کرنے کا نام ہے اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں سے ہے۔ یہ شیطان زادوں سے اظہار برائت کرنے کی جگہ ہے۔
O لبیک لبیک کہہ کر تمام بتوں کی نفی کریں اور تمام چھوٹے چھوٹے طاغوتوں کے خلاف لا کی فریاد بلند کریں۔ طواف حرم حق عشق کی علامت ہے، طواف کرتے ہوئے دلوں سے غیر اللہ کی محبت نکال دیں۔ اپنی روح کو پاک کریں، حق کے ساتھ عشق کے موقع پر چھوٹے بڑے بتوں، طاغوتوں اور ان کے ہمکاروں سے اظہار نفرت کریں۔ اللہ اور اس کے پیاروں نے ان سے اظہار بیزاری کیا ہے اور دنیا کے تمام آزاد انسان ان سے بیزار ہیں۔
O فطری آرزوؤں اور انسانی تمناؤں کو حاصل کرنے کے لیے اعمال حج میں شرط ہے کہ تمام مسلمان حج کے مراحل و مقامات پر جمع ہوں اور مسلمانوں کے گروہوں میں وحدت کلمہ ہو، زبان، رنگ، قبیلہ، گروہ ،سر حد اور قومیت کے فرق اور دور جاہلیت کے تعصبات کے بغیر متحد ہو کر اس مشترکہ دشمن پرٹوٹ پڑیں جو اسلام عزیز کا دشمن ہے اور موجودہ دور میں اس نے اس اسلام سے زخم کھائے ہیں۔
یوں معلوم ہوتا ہے جیسے امام خمینیؒ یہ باتیں آج سے تیس پینتیس برس پہلے نہیں بلکہ آج ہی فرما رہے ہیں اور آج ہی کے عازمین حج ان کے مخاطب ہیں۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ایسی باتوں کو سیاسی کہہ کر روکنا درحقیقت اپنے مقام پر ایک شیطانی سیاست ہے۔ ہم اللہ کی بارگاہ سے توقع رکھتے ہیں کہ خانۂ خدا کا حقیقی ابراہیمی ؑ و محمدیؐ حج بالآخر ضرور برپا ہوگا اور جو عالم انسانیت کی طاغوت اور شیطان کے خلاف اجتماعی آواز بن جائے گا۔ اس کی نوید اسلامی روایات میں بھی دی گئی ہے، ہاں وہی دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے ایک عالمی قائد ظاہر ہوگا جو خانۂ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر ساری انسانیت کو اللہ کی کبریائی کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی دعوت دے گا، جس کے ہاتھوں دنیا عدل و داد سے یوں پُر ہو جائے گی جیسے وہ آج ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ قرآن حکیم کی یہ آیت بھی اسی نوید کی ترجمان معلوم ہوتی ہے:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَءِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَO
ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ان پر احسان کریں جنھیں زمین میں کمزور کردیا گیا ہے اور انھیں پیشوا بنائیں اور انہی کو ہم وارث بنائیں۔