مضامین

دہشتگردی کیخلاف ہماری جنگ

تحریر: سرفراز حسین حسینی

کل شام ایک نجی ٹی وی چینل پہ کراچی کے علاقے لیاری کے بارے میں ایک تفصیلی پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا، اینکر پرسن لیاری میں موجود رینجرز ہیڈ کوارٹر سے اپنا پروگرام پیش کر رہا تھا، جہاں اس کے توسط سے رینجرز کے اعلٰی افسران سامعین کو لیاری کی سابقہ خطرناک صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے کہ کیسے چند ماہ قبل تک یہ پورا علاقہ ہی تقریباً نو گو ایریا تھا۔ خطرناک ترین گینگ وار کے سرغنہ اور کارندے یہاں آزادانہ دندناتے تھے، قاتلوں اور دہشت گردوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ یہی علاقہ تھا، پولیس اور سکیورٹی کے لوگوں کے سر سے فٹ بال کھیلا جاتا تھا، منشیات، قتل و غارت، اغوا براے تاوان، غیر قانونی اسلحہ، پراپرٹیز پہ قبضہ، گینگ وار، بھتہ خوری، غرض ہر قسم کے گھناؤنے کاموں کا مرکز کراچی شہر کا یہ علاقہ تھا، پھر حکومت اور سکیورٹی کے اداروں نے ٹھانا کہ اب بہت ہوگیا لہذا اس علاقے میں آپریشن شروع کیا گیا، خطرناک مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، بڑے بڑے گینگ وار کے ٹھکانے تباہ کئے گئے، سرغنے ہلاک ہوئے، پکڑے گئے یا بیرون ملک فرار ہوگئے، اب کوئی علاقہ نو گو ایریا نہی رہا اور امن ہے کہ لوٹ آیا ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پہ رینجرز کے ساتھ اینکر نے پورے لیاری کا دورہ کیا، لوگوں کے تاثرات لئے جنہوں نے سکھ اور چین کا اظہار کیا اور کہا کہ اس آپریشن کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جہنم سے نکل کر جنت میں آگئے ہیں۔

ایک لمحہ کو تو خوشی اور اطمینان کا احساس ہوا کہ لیاری کے لوگوں کو امن میسر آیا، ان کی جانیں محفوظ ہوئیں اور کاروبار زندگی دوبارہ رواں دواں ہوا، لیکن دوسرے لمحے ہی ذہن میں وہ ساری فلم گھوم گئی کہ لیاری کی ان گینگز کے اعلانیہ سرپرست کون تھے، رحمان ڈکیت، بابا لاڈلہ اور عزیر بلوچ کن کو اپنا سیاسی گرو مانتے تھے، اس گینگسٹرز کی اجازت کے بغیر کانسٹیبل سے لے کر ایس ایچ او اور ایس پی تک کی تعیناتی نہی ہوتی تھی تو کون سے سیاسی اور انتظامی سربراہان ان کے احکامات کی تعمیل کرواتے تھے، پیپلز امن کمیٹی میں کون کون تھا اور کون انہیں اپنا بچہ کہتا تھا، بے امنی کے اس دور میں کون لیاری کے ایم این اے اور ایم پی ایز تھے اور ان کا تعلق کس سیاسی پارٹی سے تھا، کون سی پارٹی ان گینگسٹرز کے بل بوتے پہ لیاری کو اپنا گڑھ کہتی تھی۔ آصف زرداری سے لیکر ذوالفقار مرزا، قائم علی شاہ اور سندھ پیپلز پارٹی کے تمام سرکردہ لیڈرز لیاری دورہ کے دوران کس کے ہاں قیام کرتے تھے اور کن کن کے ساتھ ان کی تصاویر تھیں، کون ان کے جلسے منطم کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

لیاری کے گینگسٹرز پکڑے گیے، مارے گئے یا فرار یوگیے۔ لیکن آیا کسی نے ان کے سرپرستوں کو چھوا یا ہاتھ بھی لگایا، وہ آج بھی حاکم ہیں، طاقتور ہیں اور وقت آنے پہ اسی طرح کے گروہوں کو پیدا کرنے، منظم کرنے اور اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے لئے غریب عوام پہ مسلط کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ سرکش کارندوں کو مارنے، غائب کرنے اور ان کے سرپرستوں کی آبیاری کرنا بدقسمتی سے ہمارے مقتدر حلقوں کا پسندیدہ شوق رہا ہے، یہ صرف لیاری تک محدود نہیں۔ ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں سے پوری قوم گاہ ہے، یہ پوری تنظیم، اس کا بانی قائد اور دیگر رہنما ان جرائم میں شریک تھے، الطاف حسین تو سالوں سے ملک سے باہر ہیں، کون تھا جو اس کے احکامات پہ یہاں عملدرآمد کرواتا تھا؟ یقیناً اس تنظیم کے ذمہ داران اور عہدیدار، سیکٹر کمانڈرز، لیکن جب اس تنظیم کے خلاف آپریشن کا سوچا گیا تو صرف الطاف اور اس کے چند ساتھیوں کو ایم کیو ایم لندن کے نام سے علیحدہ کرکے زیر عتاب کیا گیا اور اس کے تمام ساتھیوں، سہولت کاروں اور جرم میں معاون عہدیداروں کو ہانک کے پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کی لانڈری میں ڈرائی کلین کرکے دوبارہ سے اسی غریب اور مظلوم عوام پہ حکمرانی کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔

90 کے عشرے کے درمیان میں اچانک طالبان کا نام سامنے آیا، یہ دور روشن خیال اور پروگریسو نظریات کی حامل محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا، جن کے وزیر دفاع سابق جنرل اور اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور ترین شخص نصیر اللہ بابر تھے، افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کے چکر میں اعلٰی اذہان نے طالبان کو تخلیق کیا، محترمہ نے چاہتے نا چایتے اس پلان کی منظوری دی اور امریکہ نے اس پلان پر مہر تصدیق ثبت کی اور پھر اسلام کے نام پر امیرالمومنین ملا عمر کی قیادت میں لشکر اسلام نے مسلم ریاست افغانستان پہ چڑھائی کر دی۔ طالبان وہاں معصوم لوگوں کی گردنیں اتار رہے تھے، ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا تھا، مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا اور یہاں ہمارے علماء، سرکاری میڈیا، دین کے ٹھیکیدار ریٹائرڈ جرنیل، صحافی اسے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نام دے رہے تھے، ہزاروں کی تعداد میں یہاں سے مدرسوں کے طالبعلموں، فرقہ پرست تنظیموں اور مذہبی جنونیوں کو افغانستان منتقل کیا جا رہا تھا۔ افغان طالبان کو یہاں فرشتے بنا کر پیش کرنے کا فوری اثر یہ ہوا کہ خود وطن عزیز میں سوات اور قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان TTP اور جنوبی پنجاب اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پنجابی طالبان تحریک نے ناصرف سر اٹھانا شروع کیا بلکہ سوات سمیت چند علاقوں میں اپنی ڈی فیکٹو حکومتیں بھی قائم کر لیں۔

9/ 11 کے بعد جب ہمارے آقا امریکہ کی ترجیحات بدلیں تو طالبان کے موضوع پہ ہم نے بھی U Turn لیا اور پھر ہمارے بچے ہی ہمارے دشمن
و باغی قرار پائے، نتیجتاً اب ان درندوں کے ظلم کا شکار ہماری اپنی قوم بننا شروع ہوئی، سکیورٹی افسران و جوانان سمیت 80 ہزار سے زائد معصوم لوگ لقمہ اجل بنے، طالبان کی تخلیق کو قبول کرنے والی محترمہ بینظیر انہی طالبان کے ہاتھوں (موجود شواہد کے مطابق، وگرنہ پی پی کی حکومت بھی اس معمہ کو حل نہ کر سکی) شہید ہوئیں۔ ہم نے یہاں آپریشن پہ آپریشن شروع کئے اور ملک ایک اندرونی جنگ اور اس کے تلخ ثمرات کا شکار ہوا اور تا حال شکار ہے۔ سوال پھر وہی کہ اب جبکہ سرکاری طور پہ طالبان، داعش اور اس فکر کے افراد کو ہم اپنا دشمن قرار دے چکے ہیں تو جن اذہان نے ان کو تخلیق کیا، ان کی تربیت کی، سرپرستی کی، تکفیری نظریات کا علمبردار بنایا، ان کے خلاف ریاست نے کیا اقدامات کئے، وہ علماء، مدارس، تنظیمیں، ادارے، سول و فوجی افسران، صحافی، لکھاری سب ویسے ہی موجود ہیں، کچھ مصلحتاً خاموش تو کچھ آج بھی ان کے حمائتی۔ دہشت گردوں کے ان سرپرستوں کو آج بھی اتنی چھوٹ ہے کہ کوئٹہ میں ایک واقعہ میں سینکروں افراد شہید ہوتے ہیں، قاتل گروہ سینچری بنانے والا ترانہ تیار کرتا ہے اور ببانگ دہل شہر کے مرکزی چوک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں اپنے جلسہ کے دوران اسے بجاتا ہے اور ریاست نا صرف خاموش بلکہ اس گروہ کے رہنما آج بھی حکومت کی مہیا کی ہوئی سکیورٹی میں آزادانہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مستونگ اور اس کے اردگرد آئے روز ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی سہولت کاری میں ملوث سیاسی شخصیات اور سرداروں کو کون نہی جانتا، لیکن کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ پنجاب میں بھی دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں، لیکن ان دیشتگردوں کے سرپرستوں، ان کے ساتھ سیاسی الائینس کرنے والی نون لیگ کے سرکردہ راہنماوں، سرکاری افسران، قانونی سہولیات فراہم کرنے والے سرکاری اداروں، جلسوں میں شریک سیاسی راہنماؤں کو کون پوچھے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کے دہشتگردوں بارے بدلتے موقف کی تان اس وقت ٹوٹی جب اس صوبائی حکومت نے سرکاری طور پر اس مدرسہ کو اعلانیہ 200 ملین روپے کی امداد دی، جس کے پڑھے ہوئے جہادی افغانستان اور پاکستان میں سب سے زیادہ متحرک ہیں اور آج وطن کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ حقانی نیٹ ورک بھی اسی مدرسہ سے مربوط ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ پاکستان دشمنی پہ مبنی بیان سے ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے جوش ایمانی نے غیرت بھی کھائی اور خون بھی کھولا، لیکن جب تھوڑا سا اپنے گریبان میں جھانکا تو محسوس ہوا کہ جتنا بڑا وہ شیطان ہے، اتنے معصوم ہم بھی نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button