امریکی دھمکی، سعودی بے اعتنائی اور ہماری پالیسی
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
پاکستان کیلئے امریکی دھونس کوئی نئی بات تو نہیں مگر امریکی صدر نے جارحانہ لب و لہجے میں پاکستان کو حال ہی میں جس طرح ڈرایا دھمکایا ہے، اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ ماضی میں کبھی ہماری خراب کارکردگی کے باعث اگر امریکہ بہادر ناراض بھی ہوتا تو ہم اسے کسی نہ کسی طرح راضی کر ہی لیتے تھے۔ ان راضی ناموں میں مشترکہ مفادات کے نام پر وہ غیر اعلانیہ ضرورتیں دونوں جانب کارفرما ہوتی تھیں کہ جو ایک دوسرے کو جوڑے رکھتی تھیں، تاہم اب کے ایسا نہیں ہے۔ اب امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے بھارت کی صورت میں ایسا حلیف دستیاب ہے کہ جو خطے میں اس کے مفادات کا بہترین نگران اور چوکیدار ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ بدمعاشی و تھانیداری کے معیار پہ بھی پورا اترتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو بھی یہ سمجھ لگ چکی ہے کہ نوکری چاہے جتنی بھی پرانی ہو، اعتماد سے عاری ہوتی ہے اور نوکری کے بجائے تجارت کے پیشے میں زیادہ آمدن ہے، چنانچہ امریکی خدمت پہ ہی انحصار کے بجائے چین کے ساتھ شراکت داری میں زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے۔ دونوں کی ترجیحات بدلنے کے باعث چھوٹی موٹی غلط فہیمیاں بھی اب بڑی دوریوں میں بدلنے لگی ہیں۔ امریکی صدر نے جن وجوہات پہ پاکستان کو معتوب ٹھہرایا ہے۔ ان کی حقیقت سے پاکستان اور امریکہ دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔
ان دھمکیوں کے بعد وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے فوری طور پر سعودی عرب کی جانب رخت سفر باندھا۔ وزیراعظم پاکستان کا دورہ سعودی عرب وقت، حالات اور شخصیات کے چناؤ کے اعتبار سے انتہائی کمزور فیصلہ تھا، جس سے پاکستان کی جانب سے انتہائی کمزور پیغام گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے سعودی عرب جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب کثیر الملکی اسلامی عسکری اتحاد کا سربراہ ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، چنانچہ امریکہ کے جارحانہ رویے کیخلاف سب سے پہلے سعودی عرب سے اظہار یک جہتی کا حصول ضروری ہے۔ حالانکہ جس کثیر الملکی فوجی اتحاد کا سربراہ سعودی عرب ہے۔ اسی اتحاد کی پہلی نشست کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی اور اس پہلی نشست میں بھی کانفرنس اور امریکہ کے صدر نے بھارت کے کردار کا خیر مقدم اور بھارت کو دہشتگردی کا شکار قرار دیا تھا جبکہ پاکستان پہ بالواسطہ الزام لگایا گیا تھا۔ چنانچہ کثیر الملکی فوجی اتحاد کو سامنے رکھا جائے تو سعودی عرب امریکہ کے حامی اور پاکستان کے مخالف کیمپ کا تو حصہ بن سکتا ہے، امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ظاہر و باطن دونوں حوالوں سے امریکہ اسرائیل کیمپ کا حصہ ہے، پاکستانی وزیراعظم کے فوری دورہ سعودی عرب سے یہ بھی تاثر ملا کہ پاکستان ناراض امریکہ بہادر کو رام کرنے کیلئے سعودی عرب سے درخواست گزار ہے۔
یہ المیہ تو اپنی جگہ ہے کہ پاکستان نے سعودی چینل کے ذریعے امریکی ناراضگی دور کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اس سے بڑھ کر المیہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق پاکستان کو اپنے تعاون کی یقین دہانی تو درکنار درخواست وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو اولاً تو ائیرپورٹ سے ہی واجبی سا پروٹوکول نصیب ہوا، پھر بعدازاں سعودی شاہ سلمان نے ملاقات کے لئے وقت ہی نہیں دیا اور شاہد خاقان عباسی کو ولی عہد سے ملاقات پہ ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ایک جانب تو سعودی عرب جانے کیلئے وقت کا انتخاب ہی غلط تھا، جس سے امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو بڑا کمزور پیغام گیا، دوسری جانب وزارت عظمٰی کے منصب پہ ایک ایسی شخصیت موجود تھی جو کہ قطری گیس کی سب سے بڑی کلائنٹ بھی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نہ صرف قطر سے ایل این جی کے بڑے خریدار ہیں بلکہ سعودی عرب جانے سے محض ایک دن قبل انہوں نے قطر سے پاکستان کیلئے حاصل کی جانے والی گیس کی مقدار بھی دگنی کرنے کا اعلان کیا تھا، سعودی عرب اور قطر کے مابین تعلقات و تنازعہ کسی سے پوشیدہ تو ہے نہیں۔ اب سعودی عرب جو ایک جانب امریکی حلیف، دوسری جانب قطر کا حریف کیونکر پاکستان کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرسکتا تھا۔؟