مضامین

غائبستان

تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

جبری گمشدیاں عالمی ایشو بن گئی ہیں اور یہ دنیا کے کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہیں۔ کبھی جبری گمشدگیاں صرف فوجی آمریتوں تک محدود ہوتی تھیں، مگر یہ داخلی تصادموں کی وجہ سے بہت ہی گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے اور مخالفین کے خلاف سیاسی جبر کے طور پہ اسے خاص طور پہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ تحریر اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پہ جبری گمشدگیوں کے عالمی دن 30 اگست کے حوالے سے درج کی گئی۔ اقوام متحدہ جبری طور گمشدگی کے حوالے سے اس دن کو 2010ء سے مناتی چلی آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کی یو این کونسل برائے انسانی حقوق کے جبری گمشدگی کے لئے بنائے گئے ورکنگ گروپ کی چیئرپرسن حوریہ السلمی کے مطابق جبری گمشدگیوں کو اکثر معاشرے میں دہشت پھیلانے کی حکمت عملی کے طور پہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے پھیلایا جانے والا عدم تحفظ صرف جبری گمشدگان کے قریبی رشتے داروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے متاثرین کی کمیونٹیز اور پورے سماج تک پھیلا ہوا ہے۔

پاکستان میں درجنوں شیعہ جوانوں سمیت دیگر کمیونٹیز کے افراد کو گذشتہ ایک سال میں گذشتہ سالوں کی نسبت زیادہ تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سال کے آغاز میں چند بلاگرز کو گم کیا گیا اور کچھ الزامات کے بعد رہا کر دیا گیا، لیکن اس سے قبل اور بعد میں شیعہ جوانوں کو مبینہ طور پر مختلف الزامات اور شک کی بنیاد پر گم کیا گیا ہے۔ گمشدہ افراد کے لواحقین اور ملت جعفریہ کے جید علماء کرام نے اس کو قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے جیل بھرو تحریک کا آغا کر دیا ہے، آج کراچی میں گمشدہ ثمر نقوی کے والد اور علامہ حسن ظفر نقوی نے گرفتاری دی ہے۔ آئندہ چند دنوں بعد دیگر شیعہ رہنمائوں نے گرفتاری کا اعلان کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شیعہ کمیونٹی کے سینکڑوں جوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر احتجاج شدت اختیار کرچکا ہے۔ ٹویٹر پر ریکور شیعہ مسنگ پرسن کا ٹرینڈ ٹاپ کر رہا ہے، ملت تشیع پاکستان کے نوجوان گمشدگی کے مسئلہ کو قومی مسئلہ قرار دیکر دوسری کمیونٹیز کے لئے بھی مثال بن چکے ہیں کہ غائبستان میں خاموشی کی بجائے شور مچانے اور احتجاج سے ہی اس گھمبیر مسئلہ کا حل نکلے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button