یاد کربلا اور غم حسین ؑ کا تقاضا ہے کہ کردار میں تبدیلی آئے، علامہ ریاض نجفی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر حافظ سید ریاض حسین نجفی نے لاہور میں طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے کربلا کی یاد ایک بار پھر منانے کی توفیق اور فرصت بھی نعمت ہے، یاد کربلا اور غم حسین ؑ منانے کا تقاضا ہے کہ کردار میں تبدیلی آئے، اسلام اور راہ خدا میں دی جانیوالی ہر قربانی کا تقاضا ہے کہ کردار میں تبدیلی کے ساتھ علم کے حصول اور جستجو میں بھی اضافہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلاف کی سیرت کے عملی پہلوﺅں میں علمی عظمت بہت نمایاں تھی، یورپ نے ہم سے علم سیکھا، یہ حقیقت قابل فخر ہے کہ مکتب اہلبیت ؑہی اسلام کا حقیقی چہرہ ہے، اس لحاظ سے نشرواشاعت دین میں ہماری ذمہ داری دوسروں سے زیادہ بنتی ہے، کربلا میں بقائے دین کیلئے قربانیاں دینے والوں سے ہمارا زیادہ تعلق ہے، اپنے پاس علم ہوگا تو دوسروں کو سکھائیں گے، حصول علم کیلئے اس دور کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، بعض لوگوں کا یہ خیال درست نہیں کہ ہم ان پڑھ تھے تب بھی گزارا ہو گیا، اب ہمارا بچہ میٹرک تو ہے، علمی ترقی ہر کام اور شعبہ کیلئے مفید ہے چاہے حق کو پہچاننے کیلئے ہو یا قربانیوں کی قدردانی کیلئے ہو۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ کسی کی باتوں، تحریر و تقریر کی صحت و سقم کو بھی علم کی بنیاد پر پرکھا جا سکتا ہے، صحیح عقائد کا تجزیہ بھی معلومات اور علم کا محتاج ہے، سازشوں کو سمجھنے کیلئے بھی فہم و ادراک لازم ہے، جو علم سے حاصل ہوتا ہے، قرآن کے مطابق انسان ناشکرا ہے، اپنے وجود کے اندر ان گنت اسرار و رموز کا ادراک بھی علم سے حاصل ہوتا ہے، علم و معرفت کی کمی کا نتیجہ ہے کہ انسان دولت کا رسیا بن گیا ہے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ عبادت سے سکون و سرور کیوں نہیں ملتا؟ فرمایا ” غذا حلال کرو“۔ اللہ تعالیٰ نے ہر وہ چیز حلال قرار دی ہے جو جسم کیلئے مفید ہے اور ہر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے جو بدن کیلئے مضر ہے، طلب رزق میں فقط اطاعت خدا کو پیش نظر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سورہء مبارکہ الکوثر قرآن مجید کی 15ویں سورت ہے، اسلام کے ابتدائی دور میں کعبہ میں علمی شہ پارے آویزاں کئے جاتے تھے۔ سورہ الکوثر کے نزول سے قبل ”سبعات معلقہ“ یعنی سات قصیدے آویزاں کئے گئے جن میں چار قصیدے مشہور شاعر امراءالقیس کے تھے جس کا لقب ملک الضلیل یعنی گمراہوں کا بادشاہ تھا۔ معمول کے مطابق انہیں ایک سال تک کعبہ میں آویزاں رہنا تھا لیکن سورہ الکوثر کے تین فقرات کی عظمت و جلالت کا وہ اثر ہوا کہ وہ سب اتار لئے گئے۔ اس سورت کے شان نزول میں یہ واقعہ بھی ہے کہ عاص بن وائل رسول اکرم ﷺ کی توہین کرتا اور بے اولاد کے طعنے دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کو کوثر یعنی خیر کثیر کی خوشخبری سنائی۔” خیر کثیر “ کے بارے مفسرین نے کئی اقوال بیان کئے ہیں۔