طويريج کون ھیں، انکا کربلا کے سفر کا آغاز کب ھوا ؟
کربلا سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر طویریج کا شہر واقع ہے کہ جو اداری طور پر ھندیہ کا ذیلی شہر شمار ہوتا ہے، دس محرم کو صبح کے وقت طویریج شہر کے تقریبا سب لوگ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر کربلا کی طرف چل پڑتے ہیں اور ظہر سے پہلے پہلے کربلا کی حدود میں موجود قنطرة السلام کے علاقے میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر وہیں سب کے سب ظہرین کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں کربلا کے رہنے والے اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مومنین قنطرة السلام کے مقام پر اہل طویریج کے ساتھ آ کر مل جاتے ہیں اور پھر نماز سے فارغ ہونے کے فورا بعد عزاء طویرج کا یہ جلوس لبیک یا حسین …..لبیک یا حسین ….واہ حسین …..یا حسین…..ابد واللہ ما ننسی حسینا….کی گونج دار صدائیں بلند کرتا ہوا خیام حسینی کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور پھر وہاں سے دوڑتے ہوئے حضرت امام حسین(ع) کے روضہ مبارک میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے دوڑتے ہوئے ما بین الحرمین سے ہوتا ہوا حضرت عباس(ع) کے روضہ مبارک میں داخل ہو جاتا ہے۔ اہل طویرج کا یہ جلوس عزاء صدیوں سے اپنے اس مخصوص انداز میں دس محرم کو خاندان رسالت کو پرسہ پیش کرتا چلا آرہا ہے۔ ہمیشہ سے ہی عزاء طویریج کے جلوس میں جو حسینی حرارت، گریہ و زاری کی کیفیت اور عزاداری کی خاص حالت ہوتی ہے وہ کسی بھی دوسرے جلوس میں دیکھنے میں نہیں ملتی اس جلوس میں طویریج کے سب مرد، خواتین، بچے، بوڑھے اور حتی کہ معذور بھی اپنا سب گھر بار چھوڑ کر کربلا کی طرف چل پڑتے ہیں پورے راستے میں امام حسین(ع) پر گریہ و ماتم کرتے ہیں۔ طویریج کے مرد کھلے سر اور ننگے پاؤں پوری قوت و طاقت سے ماتم کرتے ہیں اور جب عزاء طویرج کا جلوس کربلا میں داخل ہوتا ہے تو پورے شہر میں حزن و ملال اور امام حسین(ع) پہ ہونے والی عزاداری میں مزید جوش پیدا ہو جاتا ہے۔
ایک سال دس محرم کے دن آیت اللہ العظمی سید مہدی بحر العلوم کچھ علماء اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کربلا آئے اور کربلا کی حدود میں اہل طویریج کے اس جلوس عزاء کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے اور جب جلوس قریب پہنچا تو سید مہدی بحر العلوم نے اچانک اپنا عمامہ اتار دیا اور روتے ہوئے جلوس کے درمیان میں چلے گئے اور پوری طاقت کے ساتھ ماتم کرنا شروع کر دیا اور سارے جلوس کے دوران بلند آواز سے یا حسین… یا حسین… وا حسین…. وا حسین…. کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اپنے سر، چہرے اور سینے پر ماتم کرتے رہے اور چیخ چیخ کر روتے رہے۔ سید مہدی بحر العلوم کی اس کیفیت کو دیکھ کر لوگ بہت تعجب میں پڑے رہے اس واقعہ کے وقت سید بحر العلوم کافی بوڑھے تھے لہٰذا ان کے قریبی لوگوں نے انہیں جلوس کے دوران گھیرے رکھا تا کہ تیز رو دریا کی طرح چلتے ہوئے جلوس میں سید بحر العلوم گر ہی نہ جائیں۔ سید مہدی بحر العلوم کے ساتھ رہنے والوں نے کبھی بھی ان کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا جب جلوس ختم ہوا تو سید کی تھکاوٹ کی وجہ سے عجیب حالت ہو چکی تھی اور چہرے اور جسم پر شدید ماتم کی وجہ سے نشانات پڑے ہوئے ہیں۔ جلوس کے بعد سید بحر العلوم کے ساتھیوں میں سے ایک نے سید بحرالعلوم سے پوچھا: کہ جلوس کے قریب آتے ہی آپ نے یہ سب کیوں کیا؟ تو سید مہدی بحر العلوم نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سید بحر العلوم نے روتے ہوئے کہا: میرے اس عمل پر تعجب نہ کرو اور اگر کسی دوسرے عالم کو بھی ایسی حالت میں کبھی دیکھنا تو تعجب نہ کرنا جب عزاء طویرج کا جلوس قریب آیا تو میں نے امام زمانہ(عج) کو کھلے سر اور ننگے پاؤں جلوس میں دیکھا کہ جو عزاداروں کے ساتھ مل کر ماتم کر رہے تھے اور رو رہے تھے جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور جلوس میں داخل ہو گیا اور امام زمانہ کی طرح میں بھی اپنے سینہ پر ماتم کرنے لگا۔
واضح رہے سن1885ء ((1303هــ)) سے شروع ہونے والا یہ جلوس عزاء اس وقت دنیا میں امام حسین(ع) کی یاد میں نکلنے والا سب سے بڑا جلوس ہے کہ جو تمام اقوام عالم کے لیے تاریخی لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دس محرم کو ظہر کے بعد کربلا کے پرانے شہر سے 2کلو میٹر کے فاصلے پر مشرقی سمت میں منطقہ (قنطرة السلام) ہے طویریج شہر کی طرف سے کربلا آتے ہوئے قنطرة السلام کربلا کی حد شمار ہوتا ہے اور موکب عزاء طویریج یا رکضة طویریج کے نام سے برآمد ہونے والے جلوسِ عزاء کی ابتداء اسی جگہ سے ہوتی ہے۔ اس جلوس عزاء کی سرپرستی طویریج کے علماء دین اور طویریج میں رہنے والے قبیلہ آل عنبر، قبیلہ بنی حسن، قبیلہ آل فتلہ، قبیلہ دعوم اور قبیلہ اشرف کے بزرگ کرتے ہیں اور اس جلوس میں طویریج شہر کے تقریبا سب لوگ شرکت کرتے ہیں، اہل طویریج کے علاوہ بھی لاکھوں مومنین اس جلوس عزاء میں شریک ہوتے ہیں۔ اس منفرد جلوس میں شرکت کرنے والے ظہر سے پہلے قنطرة السلام پہ جمع ہو جاتے ہیں اور یہاں آنے والوں کی اکثریت گھروں سے پیدل ہی نکلتی ہے اور دسیوں کلو میٹر کا فاصلہ گھروں سے پیدل طے کر کے یہاں پہنچتی ہے۔
امام حسین(ع) نے کربلا کے میدان میں ھل من ناصر ینصرنا، ھل من ذاب فیذب عنا… کی صدا بلند کی تھی لہٰذا عزاء طویریج میں شامل عزادار جلوس کی ابتداء سے ہی لبیک یا حسین…. لبیک یا حسین…. یا لثارات الحسین۔۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے امام حسین(ع) کے روضہ مبارک کی طرف دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور اس جلوس میں شامل ہر شخص کی ظاہری باطنی کیفیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر وہ دس محرم 61ہجری کربلا میں ہوتا تو امام حسین(ع) کے استغاثہ پہ اسی طرح لبیک کہتے ہوئے اور د
وڑتے ہوئے آتا اور امام حسین(ع) کو دشمنوں کے درمیان کبھی بھی تنہا نہ چھوڑتا.