Uncategorized

"شہید علی ناصر صفوی کی معصوم بیٹی کی اپنے بابا کی زندگی کی خوبصورت تصویر کشی"

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) وہ جنہوں نے نرم بستر پر آرام کی بجائے میدان عمل میں اسلام کی ترویج اور خلق خدا کی ہدایت کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھائیں۔ یہ وہ خون جگر پینے والے تھے، جنہوں نے اسلام کے جیالوں کے حوصلے بلند رکھے ان کی ہمتیں باندھیں اور ان کا عمل آج بھی ہمیں تاریکیوں میں روشنی دے رہا ہے اور ان کی روح آواز دے رہی ہے۔ "شہید علی ناصر صفوی” ایک عظیم شخصیت تھے، ہمارے بابا جان دنیا کے عظیم باپ تھے، دنیا میں کم ہی ایسی مائیں ہونگی جو ایسے عظیم اور انمول اشخاص کو جنم دیتی ہیں۔

 دختر شہید علی ناصر صفوی

"ول تحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربّہم یرزقون”
"اور تم گمان بھی نہ کرو کہ کشتگان راہ خدا مردہ ہیں، نہیں وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔” مقتل میں بہنے والے شہید کے خون کے پہلے قطرے کو سلام جو "61ہجری” کی کربلا میں بہنے والے پاک خون سے متصل ہوا اور "ارجعی الی ربک” کی منزل پر فائز ہو کر ہر دور کے حسینیوں کو کربلائیں سجانے اور انقلاب برپا کرنے کا عزم دے گیا، جسکا خون نوجوان نسل کی رگوں میں دوڑتا ہوا استعمار وقت کے یزیدوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے اور اپنے بےگناہ قتل کا حساب مانگ رہا ہے۔ "بای ذنب قتلت” "شہید علی ناصر صفوی” جنہوں نے ایسی ماں کی آغوش میں تربیت پائی جہاں سختیاں تھیں، زندگی کی سہولیات میسر نہ تھیں مگر ان کا دامن کردار کی پاکیزگی اور حیا و عفت سے مالا مال تھا، ان غربت کدوں میں ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے پہلے دل کو ذکر خدا سے منور کر لیتی تھی۔ ایسی شخصیت جنہوں نے غربت، نامساعد حالات اور سختیوں کے ساتھ جنگ کرکے علم و دانش، ایمان و اخلاق اور کمالات کی چوٹیوں تک رسائی حاصل کی۔ جن کا سرمایہ ایمان، خدا پر توکل، پرہیزگاری اور سحر خیزی تھا۔ جن کی راتیں آہ سحر اور خالق کے ساتھ راز و نیاز سے بھری رہتی تھیں۔ جن کے دن، خلق خدا کی خدمت اور ان کے ہمدردی میں گزر جاتے تھے۔ وہ شخصیت جنہوں نے دشمنوں کے خلاف اس وقت "علم جہاد” بلند کیا جب مصلحت کی چادر اوڑھ کے اپنے مفادات کا بچاو بڑی چالاکی اور ہوشیاری سمجھا جاتا تھا اور دین و خلق خدا کے دشمنوں کے ساتھ پنجہ آزمائی حماقت مانی جاتی تھی، وہ شخصیت جن کی زندگی خلق خدا کے لئے شبنم اور ان کے دشمنوں کے لیے دل دہلا دینے والا طوفان تھی۔ وہ جو عظیم گفتار و کردار کے مالک تھے، وہ جو کہتے کم تھے اور کرتے زیادہ تھے، جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن سے بھی پنجہ آزمائی کے لیے تیار رہتے تھے لیکن زبانی نہیں، عمل و کردار سے اسلامی اقدار کی عظمتوں کا اعلان کرتے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button