داعشی دہشت گرد عناصر کی اگلی منزل کہاں؟
تحریر: علی احمدی
عراق اور شام میں داعش کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے جبکہ امریکہ، اسرائیل، مغربی طاقتیں اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتیں اب بھی باقی بچ جانے والے دہشت گرد عناصر کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سے داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے جدید خطوں کی تلاش کا کام شروع ہو چکا ہے۔ شام اور عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے اور اکثر ماہرین سمجھتے ہیں کہ داعش کے مکمل خاتمے کیلئے فوجی کاروائی کے ساتھ ساتھ سماجی، اقتصادی اور سیاسی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ داعش کے دہشت گردانہ نیٹ ورکس ختم کرنے کے علاوہ اس کے تکفیری اور دہشت گردانہ کلچر کے خاتمے کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ یہ تمام اقدامات عالمی سطح پر تعاون اور خطے کی سطح پر تمام ممالک کی یکجہتی کے محتاج ہیں۔ فی الحال خطے کی صورتحال ایسی فضا فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد افغانستان کو خطے میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیاں پھیلانے کیلئے انتخاب کیا جا چکا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل افغانستان میں امریکی سفیر زلمای خلیل زاد نے اعلان کیا ہے کہ داعش افغانستان میں وسیع علاقوں پر قبضہ جما رہی ہے اور اس کے مدنظر ایسے علاقے ہیں جن پر مرکزی حکومت کی گرفت کمزور ہے۔ افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی سامنے آنے کے بعد افغان حکام کی جانب سے شدید غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے روس کے شہر سوچی میں منعقدہ 14ویں والڈائی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی ناکام پالیسی ہے اور اس کا نتیجہ اس ملک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
حامد کرزئی نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں داعش امریکہ کی نظارت میں معرض وجود میں آئی اور اس تکفیری دہشت گرد گروہ نے افغانستان کے ایسے مشرقی علاقوں میں جنم لیا ہے جو مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں تھے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ان خیالات کا اظہار قندھار میں فوجی اڈے پر ہونے والے اس خودکش دھماکے کے بعد کیا جس میں 43 افغان فوجی جاں بحق ہو گئے تھے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی طرح افغانستان کے کئی اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ اراکین نے بھی دہشت گردے سے متعلق امریکہ کے دوہرے معیاروں کی شدید مذمت کی۔ ان اراکین کا کہنا تھا کہ امریکی فوجی ملک کے شمالی حصے میں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی میں مصروف ہیں جبکہ انہوں نے داعش کے کمانڈرز کو دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کیلئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
سینیٹ میں صوبہ قندوز کے رکن عبداللہ فرلق اس بارے میں کہتے ہیں کہ امریکی فوجی گاہے بگاہے طالبان کو نشانہ بناتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف داعش کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کو صوبہ قندوز اور افغانستان کے دیگر شمالی حصوں جیسے قوش کی پہاڑی اور صوبہ جوزجان کے علاقے درزاب میں دہشت گردانہ اقدامات کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اس سے پہلے بھی صوبہ ننگرہار کے رکن سمیت افغانستان کے مشرقی صوبوں سے تعلق رکھنے والی کئی سینیٹ اراکین امریکی فوجیوں پر ان صوبوں میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کا الزام عائد کر چکے ہیں۔ اسی طرح افغانستان سینیٹ کے اراکین یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ حال ہی میں داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کے انتہائی قریبی افراد افغانستان منتقل کئے جا چکے ہیں۔ صوبہ برخی کے رکن عبدالرحمان رحمانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس بارے میں متعدد افواہیں پھیل چکی ہیں لیکن ابوبکر بغدادی ابھی تک زندہ ہے۔ اگرچہ امریکہ کی سربراہی میں کرد فورسز نے شام کے شہر رقہ کو داعش کے قبضے سے آزاد کروا لیا ہے لیکن وہاں موجود داعش کمانڈرز کی گرفتاری یا ہلاکت کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔
افغانستان اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ غلام جیلانی زواک نے دہشت گردی سے متعلق امریکی دوہرے رویوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکہ طالبان کو چین اور روس کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا لہذا افغانستان میں داعش کو مضبوط بنا کر انہیں چین اور روس کے سرحدی علاقوں میں بھیجنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ روس بھی کئی بار امریکہ پر داعش کی حمایت کا الزام عائد کر چکا ہے۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی ہیلی کاپٹرز افغانستان میں داعش کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور انہیں فوجی سازوسامان مہیا کرتے ہیں۔
افغانستان میں داعش کی کاروائیوں میں خاطرخواہ اضافہ
اسی امریکی منصوبے کے تحت گذشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور اس گروہ کے دہشت گردانہ اقدامات میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ ماہ افغان عوام کیلئے خونی مہینہ ثابت ہوا جس میں افغان فورسز اور شیعہ اور سنی افغان شہریوں کے خلاف داعش کے دہشت گردانہ اقدامات میں 200 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ آخری حملے میں کابل میں واقع ملٹری اکیڈمی کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چند ہفتے پہلے کابل اور غور میں واقع دو شیعہ اور سنی مساجد پر حملہ کیا گیا جن میں 80 افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران داعش نے افغانستان میں 8 مساجد کو نشانہ بنایا جبکہ کابل میں واقع مسجد ام
ام زمان (عج) کو دو بار نشانہ بنایا گیا۔ ذیل میں گذشتہ دو سال کے دوران افغانستان میں داعش کے بڑے دہشت گردانہ اقدامات کی فہرست پیش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے دہشت گردانہ اقدامات انجام پائے ہیں جن میں ہزاروں بیگناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں:
الف) 2016ء
1)۔ فروری 2016ء: کابل میں پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب شدید دھماکہ ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس وردی میں ملبوس خودکش بمبار کی شناخت ہو گئی لیکن اس نے گرفتاری سے پہلے ہی دھماکہ کر دیا جس میں 20 افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہو گئے۔
2)۔ 19 اپریل 2016ء: کابل کے مرکزی حصے میں دو دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں 64 افراد جاں بحق اور 347 زخمی ہو گئے۔
3)۔ 21 نومبر 2016ء: فیض محمد کاتب روڈ پر واقع کابل دارالامان پر دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں 32 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہو گئے۔
4)۔ 23 جولائی 2016ء: تین خودکش حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 80 افراد جاں بحق جبکہ 231 افراد زخمی ہو گئے۔
5)۔ 5 ستمبر 2016ء: کابل میں وزارت دفاع کے قریب دو خودکش دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں زمان احمد زئی قومی سلامتی کے نائب ڈائریکٹر سمیت کئی اعلی سطحی سکیورٹی عہدیدار جاں بحق ہو گئے۔ مزید برآں، 41 افراد جاں بحق اور 110 افراد زخمی ہو گئے۔
6)۔ 11 اکتوبر 2016ء: تین خودکش بمباروں نے سخی زیارتگاہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 18 زائرین شہید ہو گئے۔
7)۔ 10 نومبر 2016ء: دہشت گرد عناصر نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے جرمنی کے قونصل خانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق اور 120 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔
ب)۔ 2017ء
1)۔ 10 جنوری 2017ء: کابل میں پارلیمنٹ کے سامنے کئی بم دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں 51 افراد جاں بحق ہو گئے۔
2)۔ 8 مارچ 2017ء: داعش سے وابستہ چار دہشت گردوں نے کابل میں امریکی سفارتخانے کے قریب ایک ملٹری اسپتال کو نشانہ بنایا جس میں 49 افراد جاں بحق اور 76 زخمی ہو گئے۔
3)۔ 31 مئی 2017ء: کابل میں صدارتی محل اور ڈپلومیٹک ایریا کے قریب ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں 150 سے زائد افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے۔
4)۔ 24 جولائی 2017ء: افغانستان کے نائب چیف ایگزیکٹو محمد محقق کے گھر کے قریب خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 35 افراد جاں بحق جبکہ 42 زخمی ہو گئے۔
5)۔ 25 اگست 2017ء: داعش کے کئی دہشت گرد کابل میں مسجد امام زمان (عج) پر حملہ ور ہوئے جس کے نتیجے میں مسجد کے گارڈ سمیت 30 افراد جاں بحق ہو گئے اور 80 سے زائد زخمی ہو گئے۔
6)۔ 18 اکتوبر 2017ء: دہشت گرد عناصر نے صوبہ قندھار میں واقع قصبے میوند میں افغان ملٹری بیس کو نشانہ بنایا جس میں 43 افغان فوجی جاں بحق ہو گئے۔
7)۔ 20 اکتوبر 2017ء: کابل اور غور میں دو شیعہ اور سنی مساجد پر حملہ کیا گیا جن میں 80 افراد شہید ہو گئے۔
افغانستان میں امریکہ اور داعش کے خلاف نفرت میں شدید اضافہ
افغانستان میں موجود زمینی حقائق کا تجزیہ و تحلیل اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور امریکی مسلح افواج مل کر افغانستان میں عدم استحکام پھیلا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے افغان عوام اور مذہبی و قومی شخصیات دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مسئلے میں امریکہ پر بالکل اعتماد نہیں کرتے اور امریکی دوغلی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے افغانستان خاص طور پر اس ملک کے شمالی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر بیگناہ افغان شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ اسی طرح امریکی اقدامات کے باعث افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور مسلح افواج کو بھی بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
افغانستان سے متعلق امریکی منصوبے عوام میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت کا باعث بنے ہیں اور افغان عوام میں امریکہ اور داعش کے خلاف نفرت روز بروز زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے حساس حالات میں افغان حکام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آپس میں اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور قومی مفادات کو ذاتی اور پارٹی مفادات پر ترجیح دیں۔ افغان حکومت اور عوام اپنی تمام تر توانائیاں دہشت گرد گروہوں کے خلاف مقابلے میں صرف کر دیں۔ افغانستان کے موثر مذہبی علماء بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عراق میں آیت اللہ العظمی علی السیستانی کے حکم پر داعش کے خلاف جنگ کیلئے عوامی رضاکار فورس "حشد الشعبی” کی تشکیل افغان علماء کیلئے بہترین نمونہ ہے۔ وہ بھی افغان عوام میں پائے جانے والی مذہبی عقیدت اور جذبات کے پیش نظر ملک کی قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے عوامی رضاکار فورس تشکیل دے کر اس اہم اور تاریخی موڑ پر امت مسلمہ کو درپیش عظیم چیلنجز پر قابو پانے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔