پیغبمر اسلامﷺ کی زندگانی اسلامی اتحاد اور یکجہتی کا مظہر
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سرور کائنات ، سرکار دوجہاں ، رحمۃ للعالمین ، خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” امت مسلمہ جسم واحد کی مانند ہے کہ جب کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔” آنحضور کی پوری زندگی وحدت و الفت کے پیغام سے سرشار ہے۔ آنحضور ﷺ نے امت کو ہمیشہ وحدت و الفت کی تاکید فرمائی۔ اہل تشیع اور اہل تسنن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقع پر ہفتہ وحدت مناتے ہیں کیونکہ اکثر اہل تسنن علماء و مورخین کے نزدیک آپ کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول ہے جبکہ اکثر اہل تشیع علماء کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت 17 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ ان دونوں تاریخ کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں لیکن اس بات پر متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ایک عام الفیل سن 570ء میں ربیع الاول کے مبارک مہنیے میں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت ایسی برکات و معجزات نمودار ہوئے جن کا تزکرہ قدیم آسمانی کتب میں ہے مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود روشن تھا، بجھ گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گذرا بلکہ آپﷺ میں نبوت کی نشانیاں شروع سے ہی موجود تھیں۔
آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلبؑ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلبؑ نے کی۔
آنحضور ﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہ اور حضرت ثوبیہ نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے چچا حضرت ابوطالبؑ نے لے لی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالبؑ کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرہ نامی عیسائی راہب نے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں موجود تھیں۔ اس نے حضرت ابو طالبؑ کو بتایا کہ اگر شام کے یہود و نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابوطالبؑ نے سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔