مضامین

اسرائیل بمقابلہ سعودی فوجی اتحاد

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

چاپلوسی کی بھی حد ہوتی ہے، جب کوئی حد سے زیادہ بگڑ جائے تو ہر عقلمند اُسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چاپلوس ہر وقت صرف واہ واہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ چاپلوسوں کی واہ واہ جب شروع ہوتی ہے تو پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمران بھی اور نام نہاد مفکرین و دانشمند بھی اپنے مفادات کے لئے اپنے آقاوں کی خوشامد اور چاپلوسی کے لئے واہ واہ میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ صرف ہم پر ہی کیا بس، آپ دنیائے اسلام کا مرکز کہلانے والے سعودی عرب کو ہی لے لیں، مئی 2017ء میں ریاض میں عالم اسلام کی عظیم کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں 55 اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ٹرمپ کی آمد پر جو جشن منایا گیا اور جو بھنگڑے ڈالے گئے وہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن شاباش دیجئے آپ اُن چاپلوسوں کو جنہوں نے اس کانفرنس میں ٹرمپ کی شمولیت، اس کے خطاب اور اس کے چاپلوسانہ استقبال پر بحیثیت مسلمان کوئی اعتراض کرنے کے بجائے سعودی بادشاہوں کے دفاع اور اُن کی چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے، یعنی چاپلوسی در چاپلوسی کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ بعض نے تو یہان تک کہہ دیا کہ حضرت شاہ سلمان اس کانفرنس میں حضرت ٹرمپ کو سنتیں سکھا رہے تھے۔ خیر مسٹر ٹرمپ نے شاہ سلمان سے سنتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ جو بھاری بھر کم ہدایا وصول کئے، وہ بھی اہلِ شعور سے مخفی نہیں ہیں۔

اگر اس روز چاپلوس حضرات چاپلوسی کے بجائے غلط کو غلط کہہ دیتے تو آج مسٹر ٹرمپ کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے امریکی صدر کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب کسی بھی امن معاہدے میں مقبوضہ بیت المقدس بطور اسرائیلی دارالحکومت شامل ہوگا۔ یہ اسرائیل بھی وہی ہے اور امریکہ بھی وہی ہے، ریاض کانفرنس میں خطاب کرنے کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کا دورہ ہی تو کیا تھا، یعنی امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل اور ان کے چاپلوس۔ یہ ایک ایسا مربع ہے، جس کے اندر عالمِ اسلام کے خلاف سازشوں کا ہر مربّہ تیار ہوتا ہے۔ گذشتہ روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ اسرائیلی دارالحکومت کی منتقلی کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ اگر کہیں پر سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت پر بات کی بھی جاتی ہے تو چاپلوس حضرات اسے سرزمینِ حرم سے دشمنی قرار دے دیتے ہیں، یعنی چاپلوسوں کے نزدیک سرزمینِ قدس، سرزمینِ حرم نہیں ہے اور قدس کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک فلسطینی مسلمان ہیں۔

چاپلوس صرف اور صرف آلِ سعود کے خادم ہیں، انہیں قدس اور فلسطین کی آزادی سے کوئی غرض نہیں۔ ان چاپلوسوں نے طالبان اور داعش بن کر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جتنی تباہی مچاہی ہے، اگر یہ اتنی جدوجہد اسرائیل کے خلاف کرتے تو یقیناً اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا، لیکن چونکہ ان کا ہدف ہی پاکستان و عراق و شام سمیت تمام اسلامی ممالک کی قومی فوج، عوامی مراکز اور ملکی سلامتی کو نشانہ بنانا تھا، اس لئے انہوں نے نہتے لوگوں کے گلے تو کاٹے، عوامی مراکز پر خودکش حملے تو کئے، لیکن کبھی اسرائیل کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا۔ پاکستان میں آرمی پبلک سکول پشاور سے لے کر شام کے شہر حلب اور عراق کے موصل میں ہر طرف ان کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم ہیں، لیکن حکومت اسرائیل کے لئے ان کے سینے میں فقط پیار ہی پیار موجزن ہے۔ انہیں آرمی پبلک سکول کے ننھے منے بچے تو مشرک نظر آتے ہیں لیکن ٹرمپ مشرک نہیں نظر آتا، یہ کسی دوسرے فرقے کے مسلمان کی تقریر سن لیں تو ان کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن ٹرمپ کے ارشادات عالیہ سننے سے ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے، یہ ریاض کانفرنس میں ایران کے خلاف تقریریں تو کرسکتے ہیں اور ایک بڑی فوج تو تیار کرسکتے ہیں، لیکن فلسطین کی آزادی کے لئے ریاض میں اسلامی افواج کے سربراہوں کی ایک کانفرنس نہیں بلا سکتے۔

یاد رکھئے! بات ممالک اور مسالک کی نہیں ہے، بات جذبہ ایمانی، غیرت دینی، حق اور باطل کی ہے۔ کیا اس دنیا میں اسرائیل سے بڑھ کر بھی کوئی دہشت گرد ہے! اگر نہیں تو پھر کہاں ہے وہ بین الاقوامی سعودی فوجی اتحاد اور کیوں اس عالمی سعودی آرمی کو سانپ سونگھ گیا ہے!!! یقین جانیے اور لکھ کر رکھ لیجئے کہ دینا چاہے اِدھر سے اُدھر ہو جائے، طالبان اور داعش کی طرح یہ فوجی سعودی اتحاد بھی، کبھی بھی اسرائیل کے خلاف ایک گولی تک نہیں چلائے گا۔ جی ہاں بالکل ایک گولی تک نہیں چلائے گا، چونکہ جب ملتوں سے غیرت اور حق پرستی ختم ہو جاتی ہے تو زبانیں حق گوئی کے بجائے خوشامد کے لئے اور تلواریں دشمنوں کے خلاف چلنے کے بجائے رقص کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں۔ آخر میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ بقولِ شاعر
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button