مضامین

انبیاء کی سرزمین۔۔۔۔۔۔ فلسطین

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: سید نیاز حسین نقوی

بیت المقدس، یروشلم اس کرہء ارض کا واحد مقام ہے جو مسلمانوں، عیسایوں اور یہودیوں کیلئے حد درجہ تقدس و اہمیت کا حامل ہے۔ درحقیقت یہ انبیاؑ ء و رسلؑ الٰہی کی سرزمین و میراث ہے۔ ہزاروں سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں سکونت اختیار فرمائی۔ ان کی اولاد میں سے حضرت یعقوب و یوسف کا بھی یہی وطن تھا، جسے ’’کنعان‘‘ بھی کہتے تھے۔ حضرت داؤد و حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم خدا سے یہاں عبادت خانہ بنایا، جہاں اب مسجد اقصٰی ہے۔ حضرت موسٰی اسی سرزمیں پہ رہے۔ بیت اللحم یہیں ہے، جہاں حضرت عیسٰی کی پیدائش ہوئی۔ انہوں نے یہیں مسجد اقصٰی کو دین کی تبلیغ کا مرکز بنایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الہامی کتب اسی سرزمین پر نازل ہوئیں۔ قرآن مجید کے 15ویں پارے کی پہلی سورہء مبارکہ اسراء کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ آخری نبی حضرت محمد (ص) حکم خدا سے یہاں آئے، جہاں مسجد اقصٰی میں انبیاء نے ان کے پیچھے نماز ادا کی اور اسی مقام سے عرش کی طرف سفر معراج پہ تشریف لے گئے۔

بیت المقدس کے کئی نام ذکر ہوئے ہیں۔ ببوس، یروشلم، اورشلیم، ایلیا، بیت ہمیقداش، بیت المقدس، قدس وغیرہ۔ قوم یہود بھی مصر سے آکر یہاں آباد ہوئی مگر ان کی تعداد بہت کم تھی۔ بابل عراق کے بادشاہ بخت نصر نے اس شہر کو تاراج کیا، یہودیوں کو قتل اور اسیر کیا۔ ایرانی بادشاہ کوروش نے حملہ کیا، یونانیوں اور رومیوں نے بھی اس سرزمین پر یورش کی۔ بیت المقدس میں عیسائی اور مسلمان تو بکثرت تھے لیکن یہودی بہت ہی کم۔ حضور (ص) نے قبل از رحلت اس سرزمین کو پرچم اسلام تلے لانے کیلئے 18سالہ اسامہ بن زید کی سربراہی میں لشکر روانہ کرنے کا اہتمام فرمایا مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔ 15ھ میں مسلمانوں نے بیت المقدس کا نظم و نسق سنبھالا۔ حضرت عمر بن خطاب نے وہاں کے اہالیان کیلئے جاری کردہ امان نامہ میں واضح کیا کہ یہاں یہودی نہیں رہنا چاہیئں۔

قرآن مجید میں عیسائیوں کی تو کسی حد تک تعریف کی گئی ہے مگر یہودیوں کو مسلمانوں کا سخت دشمن بتایا گیا ہے۔ واضح رہے یہودیت اور صیہونیت میں فرق ہے۔ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم میں حکومت عثمانی کے زوال کے بعد 1947ء میں برطانیہ و امریکہ کی ملی بھگت سے عالم اسلام کے سینے میں اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپا گیا۔ اس وقت سے اب تک امریکہ اپنی اس ناجائز اولاد کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اسی بنا پر بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے ٹرمپ کے حالیہ فتنہ انگیز اعلان کو مظلوم فلسطینیوں کے قاتل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کے قیام جتنا اہم قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کی اس شرانگیزی پر عرب ممالک کا ردعمل حوصلہ افزا ہے۔ کاش یہی اسلامی وحدت کی بنیاد بن سکے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد امام خمینی نے اسرائیل سے سفارتی تعقات منقطع کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو ’’یوم القدس‘‘ کے طور پر منانے کی اپیل کی، جو کہ گذشتہ 37 سال سے اسرائیل کیخلاف اظہار نفرت کے طور پر منایا جا رہا ہے۔

زبان اور مسلک کی بنیاد پر بھی فلسطین کی حمایت امیر عرب بادشاہتوں کا حق تھا، جو انہوں نے ادا نہیں کیا۔ اگر یہ ممالک فلسطین کا ساتھ دیتے تو ٹرمپ کو یہ جراٗت نہ ہوتی۔ چند سال قبل حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کو عبرتناک شکست دی، مگر امریکہ کے زیر اثر خلیجی ریاستوں، بادشاہتوں نے اسرائیل کی بجائے حزب اللہ کی مخالفت شروع کر دی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے پیسہ سے امریکہ نے عرب ریاستوں کو ایک ایسے اسلحہ خانہ میں بدل دیا، جس سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں۔ 42 اسلامی ملکی فوجی اتحاد نے کشمیر، فلسطین و برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کی بجائے اپنے اسلامی ملک یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن جنگ کے نتیجہ میں 50 ہزار بچے جان گنوا چکے ہیں۔ ہزاروں مہلک امراض، کم خوراکی کا شکار ہیں۔ ہر دس منٹ بعد ایک بچہ موت کی آغوش میں جا رہا ہے۔ امریکی جسارت پر جس طرح بین الاقوامی ردعمل ہوا ہے، اس سے اسلامی ممالک کو بہت سہارا ملا ہے۔ 42 ملکی اتحاد میں پاکستان کی بہت اہمیت ہے۔ اس موقع پر مذکورہ اتحاد کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ یمن کی جنگ ختم کرکے امریکہ، اسرائیل کو واضح پیغام دینا چاہئیے۔ جنرل راحیل شریف اپنا تاریخی کردار ادا کرکے بلا شبہ اسلامی دنیا کے ہیرو بن سکتے ہیں۔ ایسے مواقع کے بارے قرآن میں وعدہء الٰہی ہے کہ اللہ تعالٰی مدد کرے گا اور ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button