مضامین

افغانستان میں داعش کی موجودگی کی وجوہات

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)تحریر: محمد علی

عراق اور شام میں شدید شکست کا شکار ہونے کے بعد افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ ایک سوال یہ ہے افغانستان جیسے ملک میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کی وجوہات کیا ہیں؟ اور داعش کے پیچھے کارفرما قوتیں ان سرگرمیوں کے ذریعے کس قسم کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کا مقصد سرزمین خراسان پر قبضہ کرنا ہے کیونکہ یہ آخرالزمان سے متعلق ان کے اعتقادات کا حصہ ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم وجوہات موجود ہیں جن کی بنا پر داعش نے افغانستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک پہلے مرحلے پر افغانستان کی شیعہ عوام اور دوسرے مرحلے پر پاکستان اور ایران کی شیعہ عوام کے خلاف نیا محاذ کھولنا ہے۔ چونکہ شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے میں افغان مجاہدین پر مشتمل فاطمیون بریگیڈ اور پاکستانی مجاہدین پر مشتمل زینبیون نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے لہذا داعش کے پس پردہ قوتیں انہیں کمزور کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔

افغانستان کی خراب معاشی صورتحال، قومی اختلافات، طالبان کا مسئلہ اور کمزور مرکزی حکومت سمیت مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز کی خفیہ مدد اور حمایت بھی اس ملک میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی بعض اہم وجوہات ہیں۔ افغانستان میں داعش سے وابستہ غیر ملکی عناصر کا تعلق ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان، پاکستان، عراق اور قازقستان سے ہے۔ یہ عناصر اس سے پہلے "ازبکستان اسلامی تحریک” یا مغربی ایشیا میں داعش کی شاخ میں سرگرم عمل تھے۔ ازبکستان اسلامی تحریک پاکستان میں بھی سرگرم رہی ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم نے 2004ء میں پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے مل کر آرمی اور سکیورٹی فورسز کے خلاف کاروائیوں میں ملوث رہی ہے۔

اس بات کے پیش نظر کہ شام اور عراق کی طرح افغانستان میں بھی داعش کی جنگی حکمت عملی گوریلا وار پر مشتمل ہو گی مستقبل میں بدامنی کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے داعش کے زیر اثر علاقوں میں جہاد النکاح جیسے غیر اخلاقی اقدامات بھی جاری ہیں جن کے باعث اسلام کا چہرہ بدنام ہونے کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلیں بھی برباد ہو رہی ہیں۔ یہ اہداف درحقیقت خطے میں جدید مذہبی جنگوں کے ذریعے سکولرازم کی ترویج اور حرام بچوں کی تعداد میں اضافے پر مشتمل ہیں۔ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ نے دو علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک صوبہ ننگرہار، خوست اور کنڑ پر مشتمل مشرقی حصہ اور دوسرا صوبہ فاریاب، جوزجان اور سرپل پر مشتمل شمال مغربی حصہ۔

افغانستان کے شمال میں واقع شہروں درزآب، صوبہ جوزجان کا شہر قوش تپہ، صوبہ فاریاب کا شہر بل چراغ، صوبہ سرپل کا شہر صیاد اور شیعہ اکثریتی علاقہ میرزا اولنگ داعش کی سرگرمیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے مشرق میں واقع شہروں خاص طور پر صوبہ ننگرہار، کنڑ اور خوست میں بھی داعش کی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر علاقے کوہستانی ہیں جو صعب العبور ہونے کے باعث قبضے کے قابل نہیں۔ مختصر یہ کہ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر افغانستان کے متعدد علاقوں میں موجود ہیں لیکن عوام میں مقبولیت نہ ہونے اور افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان سے دشمنی کی خاطر شدید مشکلات سے روبرو ہیں۔ البتہ گذشتہ چند سالوں کے دوران افغان سکیورٹی فورسز نے داعش کے خلاف آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے لیکن مشرقی حصوں کے موسمی حالات اور شمال مغربی حصوں میں مقامی سکیورٹی فورسز کی سستی کے باعث ابھی تک داعش کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button