امریکہ کی اصلیت
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)
تحریر: رحمت خان وردگ
1971میں پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ پاکستان کو مدد کا جھانسہ دیتا رہا اور چھٹے بحری بیڑے کی روانگی کی افواہ چلائی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ امریکہ پاکستان کا بہترین دوست ہے حتی کہ پاکستان دولخت ہوگیا لیکن امریکی بحری بیڑہ نہ آیا۔امریکہ کی پالیسی مسلمان دشمن اور معاشی فوائد کے حصول پر مبنی ہوتی ہے اور ان دونوں معیاروں کو سامنے رکھ کر امریکہ فیصلے کرتا ہے۔انڈونیشیاء سے مشرقی تیمور کی علیحدگی فوری طور پر عمل میں آگئی کیونکہ ایک مسلم ملک سے غیر مسلموںکیلئے علیحدہ ملک بنانا تھا جبکہ 1948ء میں مسئلہ کشمیر پر بھارت نے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا اور خود اقوام متحدہ کی قرارداد بھی موجود ہے کہ 1سال میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائیگا لیکن کئی دہائیوں بعد بھی کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہ ملا کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کو غیر مسلم ملک سے علیحدگی کی ضرورت ہے اور اس معاملے پر امریکہ نے ہمیشہ منافقانہ طرز عمل اختیار کیا ہے اور پاک بھارت مذاکرات کی بات کی ہے۔امریکہ نے ایک طرف تو کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دلایا دوسری جانب پاکستان اور بھارت دونوں کو تنازعہ کشمیر پر جنگ کے حالات پیدا کرکے اپنا اسلحہ فروخت کیا ہے اور بھارت نے جب اسلحے کے انبار لگائے تو پاکستان نے بھی مجبورا اپنے دفاع کی خاطر اسلحے کی دوڑ میں شرکت جاری رکھی۔بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو امریکہ نے ہمیشہ ہوا دی ہے اسی لئے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت جاری رہتی ہے۔امریکہ مسلم دشمنی میں اکیلا نہیں بلکہ برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک بھی اس معاملے میں امریکہ کے ہمنوا ہیں۔ جہاں مسلمان ممالک میں شورش پیدا کرنے اور علیحدگی کی تحریکوں کے رہنمائوں پر مشکل وقت آتا ہے تو انہیں امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی ممالک فوری طور پر نہ صرف پناہ دیتے ہیں بلکہ ان رہنمائوں کی مالی مدد کرکے ان کی تحریکوں کو مزید موثر بنانے میں بھر پور تعاون کرتے ہیں تا کہ مسلم ممالک میں شورش اور علیحدگی پسندی میں مزید اضافہ ہو سکے۔
بلوچستان میں شورش پیدا کرکے علیحدگی پسند تحریک چلانے والے لوگوں کو برطانیہ میں نہ صرف پناہ دی گئی ہے بلکہ ہر طرح سے ان پر امریکہ ‘برطانیہ اور یورپ مہربان ہیں تا کہ پاکستان کو کمزور کیا جا سکے۔دوسری طرف امریکہ وبرطانیہ کے روئیے سے تنگ آکر جب پاکستان اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرکے روس اور چین سے قربت بڑھاتا ہے تو امریکہ کی جانب سے پہلے تو دوستی کے دعوے کئے جاتے ہیں اور جب پاکستانی قیادت اپنی پالیی پر کار بند رہتی ہے اور روس اور چین کے ساتھ ملکر سی پیک کو توسیع دیتے ہوئے ون بیلٹ‘ون روڈ جیسے وژن کی بات کی جاتی ہے تو امریکہ دھمکیوں پر اتر آتا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن دھمکیاں براہ راست چین اور روس سے قربت قائم کرنے پر نہیں دی جاتیں بلکہ دہشتگردی کا بہانہ بنا کر پاکستان کو دھمکایا جاتا ہے۔ امریکہ 2002ء سے افغانستان میں موجود ہے۔نیٹو اور اتحادی افواج لاکھوں کی تعداد میں آپریشن کر رہی ہیں۔جبکہ امریکہ واتحادی افغانستان میں گزشتہ15سال میں کھربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے لیکن ا کے باوجود جب کبھی امریکہ و اتحادیوں کی نا اہلی کے باعث افغانستان میں کوئی حملہ ہوتا ہے تو فورا اس کا الزام پاکستان پر عائدکرکے ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالے طالبان کے نام پر امریکی ایجنٹ ہیں جو امریکہ کے اشاروں پر طالبان بن کر پاکستان میں دہشتگردی کرتے ہیں اور پاکستان میں ہونیوالے زیادہ تر دہشت گردی کے واقعات افغانستان میں موجود قیادت کے اشاروں پر ہوتے ہیں جنہیںامریکہ نے محفوظ پناہ گاہیں دے رکھی ہیں اسی طرح بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دلوا کر امریکہ پاکستان پر کاری وار کرنے کی بھر پور سازشیں کر رہا ہے لیکن تمام سازشوں کے باوجود امریکہ خود کو پاکستان کا دوست قرار دیتا ہے تو ہنسی روکی نہیں جاتی۔امریکہ ہر ہر پہلو سے اب دنیا پر بے نقاب ہو چکا ہے اسی لئے تو اقوام متحدہ میں امریکہ کو شکست ہوئی ہے۔ اسی طرح چین اور روس ایک بار پھر مضبوط پوزیشن لیکر نئے عالمی اتحاد کی جانب گامزن ہیں۔یہ ایسا عالمی اتحاد ہوگا جو توسیع پسندانہ عزائم کے بجائے صر ف دفاعی پالیسی پر گامزن رہے گا اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل ممالک کی سازشوں کو نا کام بنائے گا۔سی پیک اس سلسلے میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ یہ روڈچین‘پاکستان‘افغانستان ‘ایران اور وسط ایشائی ریاستوں و روس کو ملائے گا جو امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں ہے اسی لئے گوادر پورٹ کے متبادل چاہ بہار پورٹ کی باتیں کی جاتی ہیں اور بھارت کے ذریعے بلوچستان کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ان تمام سازشوں کے باوجود اللہ کے حکم سے پاکستان سی پیک کی بروقت تعمیر کو نہ صرف یقینی بنائے گا بلکہ پاکستانی حدود میں ہر طرح کی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کریگا۔افغانستان کی حدود میں امن قائم کرنا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔افغان قیادت بھی پاکستان مخالف پالیسی ترک کرکے حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرے کیونکہ پر امن افغانستان ہمارے لئے اور پر امن پاکستان‘افغانستان کیلئے ضروری ہے۔