کوئٹہ، شہدائے کرانی روڈ کی پانچویں برسی کے اہم نکات
شیعہ نیوز(پاکستان شیعہ خبر رساں ادارہ ) گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی کوئٹہ یکجہتی کونسل کی جانب سے کرانی روڈ پر 16 فروری 2013ء کو رونماء ہونے والے خودکش حملے میں شہداء کی برسی کی مناسبت سے تعزیتی جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ تعزیتی جلسہ عام میں وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر سید فیصل رضا عابدی، مشیر خزانہ بلوچستان ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی صاحبہ، ہزارہ قومی جرگے کے صدر حاجی قیوم چنگیزی، مصطفٰی تیموری، امام جمعہ کوئٹہ علامہ محمد جمعہ اسدی اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی سمیت دیگر رہنماؤں نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ سانحہ کرانی روڈ کی پانچویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں منعقد ہونے والی آج کی یہ تقریب اس بات کی گواہ ہیں کہ دشمن چاہے جتنی سازشیں کر لیں، شیعہ ہزارہ قوم حسینیت کا راستہ کبھی بھی نہیں چھوڑے گی۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔ تاریخ گواہ ہیں کہ اگر عام عوام اپنے امام وقت (ع) کا ساتھ نہ دیں، تو خود امام (ع) پچیس سالوں تک گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ عوام کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے امام حسن (ع) کو صلح کرنا پڑی اور امام حسین (ع) کو کربلا میں شہادت دینی پڑی۔ لہذا ہمیں اپنے حقوق کے لئے پاکستان میں خود آگے بڑھنا ہوگا۔ جس طرح سانحہ علمدارروڈ اور سانحہ کرانی روڈ کے بعد کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم نے ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا، وہ پوری پاکستانی قوم کے لئے نجات کا باعث بنی۔ اس وقت کے فرعون اسلم رئیسانی کی حکومت اسی قیام کی وجہ سے سرنگوں ہوئی۔ امام علی (ع) کے ماننے والوں نے کبھی اپنی ریاست کے خلاف بندوق نہیں اٹھائی اور اس ملک کے خلاف سازش کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رہنماء و مشیر خزانہ بلوچستان ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کے پسماندگان کی دیکھ بھال اور کفالت کی ذمہ داری حکومت وقت اور قومی سربراہوں کی ہوتی ہے۔ ذاتی حیثیت سے جب بھی میرے سامنے خانوادہ شہداء کے مسائل آئے، میں نے انہیں حل کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں۔ ایک انسانی جان کی قیمت کا ازالہ کروڑوں روپے دے کر بھی نہیں ہوسکتا، لیکن ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کی جانب سے جو بھی امداد مختص کی گئی ہے، اسے مستحقین تک پہنچا سکیں۔ ماضی کے برعکس آج بلوچستان اور کوئٹہ میں حالات قدرے بہتر ہیں اور پولیس و ایف سی سمیت دیگر سکیورٹی فورسز دن رات ملک دشمن عناصر کے خلاف کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں، لہذا اس ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ ہم سب کو مل کر کرنا ہوگا۔ امام جمعہ کوئٹہ و جامعہ امام صادق کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی کا کہنا تھا کہ کرانی روڈ کے شہیدوں کے پسماندگان کے غم میں پوری پاکستان کی شیعہ برداری برابر کی شریک ہے۔ جس طرح دہشتگردی کے خلاف ہماری قوم متحد ہوئی، اسی طرح ہمیں اپنے تمام قومی مفادات کے حصول کے لئے متحد ہوکر حکومت اور دنیا کے سامنے اکٹھے ہوکر کھڑے ہونا ہوگا۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان سے دہشتگردی کے ناسور کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ حلقہ پی بی 6 کے عوامی نمائندے مصطفٰی تیموری کا کہنا تھا کہ ایک زندہ قوم اپنے شہداء کو کبھی نہیں بھولتی۔ برسی کی تقریب کے انعقاد کا مقصد یہی ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی کو ہم نہیں بھولے۔ آج کے دن ہمیں اپنے شہیدوں کے ساتھ تجدید عہد کرنے کی ضرورت ہیں کہ ہم ان مظلوموں کے خون کو کبھی نہیں بھولیں گے اور اپنے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں جتنے بھی پاکستانی شہید ہوئے، انہوں نے اس ملک کی بقاء کی خاطر اپنا لہو بہایا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت ان شہیدوں میں بھی فرق کرتی ہیں۔ ایک جانب وکلاء کے شہیدوں کو ایک ایک کروڑ روپے کے امدادی چیک دیئے جاتے ہیں، تو دوسری جانب ہمارے شہداء کو آج تک ان کے جائز حقوق نہیں دیئے گئے۔ بلاشبہ وکلاء کی شہادت ہماری قوم کے لئے ایک عظیم سانحے سے کم نہیں تھی، لیکن جس طرح حکومت ایک حلقے کو توجہ دیتی ہے اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتی ہیں، اس سے عوامی احساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔ بین الاقوامی طور پر کوشش کی جا رہی ہیں کہ ہمیں تقسیم کرکے ہماری قوت کو ضائع کیا جائے، لیکن یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اتحاد و اتفاق کا دامن تھامے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہیں۔ ہزارہ قوم کی طاقت پاکستان بھر میں رہنے والے کروڑوں شیعیوں کے ساتھ منسلک ہونے پر منحصر ہیں۔ اگر پاکستان کی شیعہ قوم ایک مٹھی بن جائے، تو دشمن کسی بھی صورت ہمیں شکست نہیں دی سکتا۔ ہماری قوم پر دہشتگردی کی لعنت کو مسلط کرنے کا مقصد صرف جانی نقصان کی حد تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس دہشتگردی کے ذریعے ہمیں بہت سی اور چیزوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے ذریعے ہمیں کاروبار، تعلیم، سرکاری نوکریوں اور دیگر سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے دور رکھا گیا۔ شیعہ ہزارہ قوم کو کوئٹہ و بلوچستان کے دیگر اقوام سے دور رکھا گیا۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ صوبے میں آباد اقوام کے درمیان دوریاں پیدا کرکے انہیں ایک دوسرے سے لاتعلق رکھا جائے۔ لہذا برسی کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کو بتا سکیں کہ دہشتگردی کے مقاصد کیا ہیں، ان کے پیچھے کونسی قوتیں کار فرما ہیں اور ہمیں ان کے خلاف کونسے اقدامات کرنے چاہیئے۔
تقریب سے خطاب میں ہزارہ قومی جرگے کے صدر حاجی قیوم علی چنگیزی کا کہنا تھا کہ ہمارے قاتل آج بھی کوئٹہ میں دندناتے پھرتے ہیں۔ بعض دہشتگردوں کو مارا گیا، لیکن ان کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ جو بعض دہشتگرد گرفتار ہوئے، ان کو جیلوں میں فائیو اسٹار سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ لشکر جھنگوی کے دو دہشتگرد حافظ عثمان اور ضیاء الحق شاہوانی کو اڑھائی سال قبل ملٹری کورٹس سے سزائے موت کی سزاء سنائی گئی تھی، لیکن آج تک نہ معلوم وجوہات کی بناء پر انہیں تختہ دار پر لٹکایا نہیں گیا۔ دوسری جانب حکومتی اداروں میں ہماری نمائندگی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں ہزارہ قوم کا ایک نمائندہ ہونا چاہیئے، لیکن گذشتہ پانچ سالوں سے ہماری نشست خالی ہے۔ بعدازاں وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے خصوصی طور پر تعزیتی تقریب میں تشریف لائے اور شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے خود اپنے خاندان سے شہید دیئے ہیں اور شیعہ ہزارہ قوم کے شہیدوں کے پسماندگان کا غم بھی سمجھتا ہوں۔ آج پانچ سالوں بعد بھی شہیدوں کی برسی کی تقریب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے نہ کبھی دہشتگردوں کے آگے سر جھکایا اور نہ آئندہ جھکائیں گے۔ شیعہ ہزارہ قوم نے دہشتگردوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس نظریئے کو وہ بندوق کے ذریعے ہم پر مسلط کرنا چاہتے تھے، اس کو آپ نے مسترد کر دیا ہے۔ کوئٹہ یا پورے پاکستان میں فرقہ واریت کہیں وجود نہیں رکھتی، بلکہ یہ واضح طور پر دہشتگردی ہے، جس میں ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنا خون دیا۔ بلوچستان میں بلوچ، پشتون اور ہزارہ سمیت کسی اور قوم میں جنگ نہیں، بلکہ یہاں دشمن اپنے نظریات کی جنگ کر رہا ہے، جسے ہم نے متحد ہوکر ناکام بنانا ہے۔
جب میں نے وزارت داخلہ کا منصب سنبھالا تو شہر اور صوبے کے حالات انتہائی خراب تھے۔ لیکن میں نے اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ ہماری سکیورٹی فورسز کی کاوشوں سے لشکر جھنگوی کے بہت سے بڑے بڑے دہشتگرد مارے گئے۔ اس کے علاوہ جن دہشتگردوں کا ذکر قیوم چنگیزی صاحب نے فرمایا، تو میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ پہلے زمانوں میں دہشتگردوں کو جیلوں میں فائیو اسٹار سہولیات میسر ہوتی تھی، لیکن کم از کم میرے دور میں ایسا نہیں۔ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ جیلوں میں لے جانے کے لئے تیار ہوں، جہاں آپ خود دیکھیں گے کہ دہشتگرد ایک قیدی کی طرح ہی جیلوں میں رہ رہا ہے۔ اسی طرح حکومت کا کام مجرموں کو پکڑ کر عدالت کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اب عدالت اور ملٹری کورٹس اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہیں، اس سے متعلق ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ شیعہ ہزارہ قوم کو جب بھی میری ضرورت ہوئی، انہوں نے مجھے اپنے درمیان پایا ہے، کیونکہ میرے گھرانے نے بھی آپ ہی کی طرح ظالموں سے ساٹھ سالوں تک جنگ کی ہے۔ تقریب کے آخر میں پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر سید فیصل رضا عابدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ ہزارہ قوم گذشتہ پانچ سالوں سے کرانی روڈ کے شہداء کی یاد میں برسی نہیں بلکہ انصاف نہ ملنے پر احتجاج کر رہی ہے۔ دنیا میں ہم سے زیادہ مظلوم کون ہوگا، جو گذشتہ سترہ سالوں سے نہ بجلی مانگتی ہے، نہ گیس، نہ دیگر مراعات بلکہ صرف اپنے بے گناہ لاشوں کا انصاف مانگ رہی ہیں۔ ملٹری کورٹس سے جن دہشتگردوں کو سزائے موت دی گئی ہیں، سپریم کورٹ نے ان پر عملدرآمد کو غیر قانون طور پر روکا ہوا ہے۔ جب ہم اپنا حق لینے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹائیں تو ہم پر توہین عدالت کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ جتنی لاشیں اس قوم نے اٹھائی، اگر دو لاشیں ان ججز کے گھر میں آجاتی تو وہ کہرام مچا دیتے، کیونکہ ان میں وہ برداشت ہے ہی نہیں۔
سید فیصل رضا عابدی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتیں سموسے اور دودھ پر تو سو موٹو نوٹس لے لیتی ہیں، لیکن اس قتل عام کے خلاف کبھی نوٹس نہیں لیا۔ چیف جسٹس کا کام سیاستدانوں کی طرح تقریریں کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کو گرفتار کرکے عدالتوں کے حوالے کر دیا، لیکن عدالتیں اپنا کام نہیں کرتی۔ گذشتہ سترہ سالوں سے اگر شیعہ ہزارہ قوم نے بندوق اٹھا کر اپنا بدلہ نہیں لیا، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں عدالت سے انصاف ملنے کی توقع تھی۔ حکمران بیشک چور ہونگے اور انہیں سزاء دلوانا بھی آپ کا کام ہے، لیکن 590 ارب روپے ٹیکس کے اوپر پچھلے سترہ سالوں سے پاکستان کی عدالتوں نے سٹے دے رکھا ہے۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے روز شیعہ نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے، لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج ہونے کے باوجود ان قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی بھیجنے کے پیسے آج تک موبائل کمپنیوں نے ادا نہیں کئے، لیکن اس پر بھی سپریم کورٹ خاموش ہے۔ ایک سال قبل ثاقب نثار نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، لیکن انہیں ایک سال بعد اپنے فرائض کی انجام دہی کا خیال آیا۔ کراچی میں ایک عرب کمپنی نے 800 ارب روپے کے کاپر کی چوری کی، لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ لہذا جو عدالتیں پاکستان کے استحکام کی جنگ لڑنے والوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے، صرف اپنی ذاتی حیثیت کو دوام بخشنے کے لئے فیصلے کریں، تو اس ملک میں نواجوان قیادت کو انصاف کی امید کس سے ہوسکتی ہے۔؟
کراچی کی کل آبادی تین کروڑ سے زائد ہے، لیکن حالیہ مردم شماری میں اس کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ دکھائی گئی ہے، جبکہ دوسری جانب ہر تکفیری کو پاکستانی بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ دنیا پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتی ہیں، لیکن ہم اس ملک کو بچائینگے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان بننے کے مخالف اور غداروں کی اولادیں آج ہمیں وفاداری کے سرٹیفیکٹس دے رہی ہیں۔ پاکستان کی میڈیا میں صبح پانامہ کیس سے شروع ہوتی ہے اور رات کو ڈان لیکس پر ختم ہوتی ہیں۔ جب کراچی میں علامہ حسن ظفر نقوی اور علامہ احمد اقبال رضوی صاحب لاپتہ افراد کا کیس لے کر سیاستدانوں کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ لہذا عوام اپنا قیمتی ووٹ صرف ان افراد کو دیں، جو ان کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک ہوں۔ انتخابات میں اپنے نمائندوں کو سامنے لائیں۔ ایسے افراد کے ہاتھ میں اختیار نہ دیں، جو آپ کے فیصلے کراچی (بلاول ہاؤس)، بنی گالہ اور رائیونڈ کریں۔ میں نے سیاست کا میدان چھوڑ دیا ہے، لیکن سیاست کے بعد ایک اور میدان سجھے گا۔ جس میں حلال زادوں کا مقابلہ حرام خوروں کے ساتھ ہوگا۔ عدالتوں نے تو ہمارے قتل عام میں ملوث دہشتگردوں کو چھوڑ دیا، لیکن وہ وقت دور نہیں جب خود ریاست پاکستان محبانِ علی کو ہتھیار اٹھا کر بغضِ امام علی (ع) رکھنے والوں کا مقابلہ کرنے کو کہے گی۔