مضامین

تحریک انصاف سے چند سوالات

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبررساں ادارہ) تحریر : نذر حافی

یہ کائنات تدبر کرنے کے لئے ہے، تدبر اور تعقل کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، سب جانوروں کو دیکھیئے، وہ ایک جیسے ہیں، ان کے جسم بھی ایک جیسے ہیں اور نفسیات بھی، عادات بھی اور حرکات بھی۔ اسی طرح سارے درخت بھی جسامت و ثمر کے اعتبار سے یکساں ہیں، دنیا میں شیر ہوں یا گیدڑ، شیر شیروں جیسے اور گیدڑ گیدڑوں جیسے پائے جائیں گے، اسی طرح درخت آم کا ہو یا سیب کا، آموں کا درخت آم کے درختوں کی مانند ہی ہوگا اور سیب کا درخت سیب کے درختوں جیسا ہی ہوگا۔ اگر ان میں کہیں فرق ہوگا بھی تو محدود پیمانے پر ہوگا، لیکن انسان کا انسان سے فرق از زمین تا آسمان ہوتا ہے، دو سگے بھائیوں میں بُعد مشرقین جتنا فرق ہوسکتا ہے، دو ہمسایوں میں بُعد قطبین جتنا فرق ممکن ہے اور دو سیاستدانوں میں ہمالیہ کی اونچائی کے برابر فرق پایا جا سکتا ہے۔ انسانوں میں یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ انسان نے کیسا بننا ہے، یہ اختیار خود انسان کو دے دیا گیا ہے، باقی مخلوقات کو جیسا انہیں ہونا چاہیے تھا، ویسا بنا دیا گیا، لیکن انسان کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جیسا بننا چاہے، ویسا اپنی مرضی اور اختیار سے بنے۔ انسان اگر چاہے تو زندان میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی آزادانہ سوچ سکتا ہے اور اگر چاہے تو آزاد فضاوں میں غلامانہ سوچ کے ساتھ جی سکتا ہے۔ انسان زنجیروں میں آزاد اور آزادی میں غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر قادر ہے۔

انسان کو کیسی زندگی گزارنی ہے، اس کا انحصار اس کی سوچ اور عقیدے پر ہے۔ انسان کی سوچ اور عقیدے پر مندرجہ ذیل عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔
1۔ وراثت
انسان اس لحاظ سے کہ اس کے ماں باپ انسان ہوتے ہیں، وہ بھی انسان پیدا ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے ہمراہ اپنے ماں باپ کی موروثی خصوصیات بھی لئے ہوئے ہوتا ہے، جیسے جسمانی ڈھانچہ، بالوں اور جلد کی رنگت، دانتوں کا انداز وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان چیزوں کو انسان اپنی مرضی سے اختیار نہیں کرتا بلکہ یہ جبراً اسے وراثت میں ملتی ہیں۔
2۔ طبیعی اور جغرافیائی ماحول
انسان جس طرح کے ماحول، موسم، منطقے، قبیلے اور علاقے میں پروان چڑھتا ہے، اس کے اثرات بھی اس پر مرتب ہوتے ہیں اور وہ ان اثرات کے تحت زندگی گزارتا ہے۔
3۔ اجتماعی ماحول
انسان جس ماحول اور اجتماع کے ساتھ میل جول رکھتا ہے، اس ماحول اور اجتماع کی زبان، کلچر، رسوم و رواج اور دین مذہب اس کے خمیر میں گھل مل جاتے ہیں۔
4۔ تاریخ اور زمانہ
انسان تنہا ماضی، حال اور مستقبل کا اسیر نہیں ہے بلکہ اس کے ماقبل کا بھی اس پر اثر پڑتا ہے اور وہ اپنے ما بعد پر بھی اپنی تاثیر چھوڑ کر اس دنیا سے جاتا ہے۔

پاکستان میں طالبان کا وجود کسی حادثے کی پیداوار نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ طالبان ایک خاص موروثیت، طبیعی و جغرافیائی ماحول، اجتماعی ماحول اور مخصوص تاریخ اور زمانے کی پیداوار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے مخصوص مدارس ہیں اور ان میں ہی یہ تیار ہوتے ہیں اور وہیں سے ہی پورے پاکستان کو سپلائی کئے جاتے ہیں۔ بابائے طالبان اور عمران خان کے باہمی تعلقات کو مذکورہ بالا عوامل کے تناظر میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے مطابق خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے 2016-17 کے بجٹ میں مدرسہ حقانیہ کیلئے 300 ملین روپے مختص کئے گئے تھے، جن میں مزید 277 ملین روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ امدادی رقم 577 ملین روپے ہوگئی ہے۔ اس رقم کی ادئیگی سے چند سوالات ابھرتے ہیں، جن کا تحریک انصاف کو بطور تنظیم ملک و ملت کو جواب دینا چاہیے:
1۔ اس رقم سے عمران خان کے مقاصد کیا ہے۔؟ کیا وہ مقاصد صرف بابائے طالبان کے مدارس سے پورے ہوسکتے ہیں؟ پورے صوبے میں صرف بابائے طالبان پر خصوصی نظرِ کرم کیوں!؟
2۔ کیا اس خطیر رقم کے عوض بابائے طالبان کے مدارس کے نصاب میں قائداعظم کے فرمودات کو شامل کر دیا جائے گا اور اُن کے مدارس پر پاکستان کا پرچم لہرا دیا جائے گا!؟

3۔ کیا ایک خاص صوبے میں طالبان کے مخصوص مدارس پر پیسوں کی برسات کرنے سے دوسرے مدارس کو یہ شہ نہیں ملتی کہ وہ بھی طالبان کی طرح پاکستان پر اپنے ترکش خالی کریں، پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹیں اور پاکستان دشمنی میں شب و روز صرف کریں، تاکہ حکومت اُن کے خوف سے اپنے خزانوں کے منہ اُن کے لئے کھول دے!؟
4۔ کیا طالبان کی اس مالی مدد اور حوصلہ افزائی کے لئے صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا ہے!؟
5۔ کیا بابائے طالبان کے دینی مدارس کے لئے خزانوں کے منہ اس طرح کھولنا دیگر تعلیمی اداروں خصوصاً دینی مدارس کی حق تلفی نہیں!؟
6۔ کیا سینیٹ انتخابات سے پہلے حاتم کی قبر پر اس طرح لات مارنا سیاسی حمایت حاصل کرنے کا ہتھکنڈہ نہیں!؟
7۔ کیا ڈی آئی خان میں جاری دہشت گردی کو روکنے کے لئے یہ رقم استعمال نہیں کی جا سکتی تھی!؟
آخر میں ہماری عمران خان صاحب سے یہ گزارش ہے کہ انسان نے کیسا بننا ہے، یہ اختیار خود انسان کو دے دیا گیا ہے، وہ اپنی سیاسی پالیسیوں پر ایک نظر ڈال کر خود ہی اندازہ لگالیں کہ وہ عوام کے نزدیک اور خصوصاً باشعور طبقے کے نزدیک کیا سے کیا بن چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button