یمن پر سعودی جارحیت کے اہداف اور انکے حصول میں ناکامی
تحریر: رامین حسین آبادیان
25 مارچ 2015ء کا دن تاریخ کا ایسا دن ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس دن عرب دنیا کا دولتمند ترین ملک ہونے کے ناطے سعودی عرب نے مصر، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان، صومالیہ وغیرہ جیسے سترہ ممالک سے فوجی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے عرب دنیا کے پسماندہ ترین ملک یعنی یمن پر فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا۔ اگرچہ سعودی حکام کا موقف یہ ہے کہ یمن کے خلاف اس فوجی جارحیت کا اصل مقصد اس ملک میں ان کے بقول جائز حکومت کو واپس برسراقتدار لانا ہے لیکن سعودی فوجی اتحاد کی جانب سے مسلسل یمن کے شہری علاقوں اور عام شہریوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اہم ترین اہداف میں سے ایک یمنی عوام سے انتقام لینا ہے۔ وہ یمنی عوام کو اس بات کی سزا دے رہے ہیں کہ انہوں نے سعودی پٹھو حکمران عبد ربہ منصور ہادی کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور اس کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی فوجی اتحاد وسیع پیمانے پر یمن کے اسپتالوں، اسکولوں، ہائی ویز، پل، پانی اور بجلی کی تنصیبات اور دیگر انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سعودی رژیم یمن کو مفلوج کر دینے کا عزم رکھتی ہے۔
وہ جنگ جسے سعودی حکومت قانونی قرار دیتی ہے اب تک 13 ہزار عام یمنی شہریوں کی شہادت اور 20 ہزار سے زائد شہریوں کے زخمی ہونے کا باعث بن چکی ہے۔ اسی طرح یمن کے ہزاروں شہری سعودی فوجی اتحاد کے ہوائی حملوں کے نتیجے میں مختلف قسم کی معذوریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ معذور ہونے والے افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف جنگ کے نتیجے میں یمن غذا اور ادویات کی شدید کمی کے بحران سے روبرو ہے۔ اب تک تین ہزار سے زیادہ یمنی شہری جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے ہیضے کی بیماری کا شکار ہو کر میڈیکل سہولیات اور ادویات نہ ہونے کے باعث اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ اس وقت بھی ہزاروں یمنی شہری ہیضے کی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اگر سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کا محاصرہ جاری رہا اور ادویات کی ترسیل انجام نہ پائی تو ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود یمن کی بہادر قوم نے گذشتہ تین سالوں سے جاری سعودی فوجی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور جارح قوتوں کو مطلوبہ سیاسی اور فوجی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام کر ڈالا ہے۔
جائز حکومت کو اقتدار میں واپس لانا یا یمنی قوم سے انتقام؟
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے سعودی حکومت کا دعوی تھا کہ یمن پر اس کی فوجی جارحیت کا اصل مقصد عبد ربہ منصور ہادی کی جائز حکومت کو اقتدار میں واپس لوٹانا ہے۔ سعودی حکام کا موقف ہے کہ صرف منصور ہادی ہی یمن کے قانونی صدر ہیں جبکہ منصور ہادی نے اپنے چار سالہ دور صدارت میں قومی خزانہ لوٹ لوٹ کر خالی کر دیا اور سعودی سربراہی میں تشکیل پانے والے اتحادوں میں شمولیت کے ذریعے عملی طور پر 14 جنوری 2011ء کی انقلابی تحریک کے بالکل برعکس عمل کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منصور ہادی جیسا شخص جس نے کئی سالوں تک سعودی رژیم کی کاسہ لیسی کی اور ان کے پٹھو کے طور پر کردار ادا کیا، کے خلاف عوام کی احتجاجی اور انقلابی تحریک نے سعودی حکمرانوں کو شدید غضبناک کر ڈالا ہے۔ درحقیقت سعودی حکومت کی جانب سے وسیع فوجی اتحاد تشکیل دے کر بیگناہ یمنی عوام کے قتل عام کی اصل اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ یمن کی انقلابی عوام سے انتقام لینے کی خواہاں ہے۔ یمن کے خلاف سعودی فوجی جارحیت کے تمام اہداف صرف یمنی عوام سے انتقام لینے تک ہی محدود نہیں بلکہ اور بھی اہم مقاصد موجود ہیں۔ ان میں سے چند اہم اہداف و مقاصد درج ذیل ہیں:
1)۔ یمن کے خام تیل اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر پر قبضہ
اگرچہ یمن کا شمار عرب دنیا کے غریب اور پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ ملک قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر سے محروم ہے بلکہ ان ذخائر سے مالا مال ہے۔ خاص طور پر یمن کے جنوبی حصے قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر کے اعتبار سے بہت زیادہ غنی ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کی روشنی میں جنوری 2014ء میں یمن میں خام تیل کی ذخائر تین ارب بیرل تھے جبکہ اسی سال یمن سے برآمد ہونے والے خام تیل کی پیداوار تقریباً روزانہ 1 لاکھ 27 ہزار بیرل بیان کی گئی ہے۔ جب سے سعودی اتحاد نے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا ہے اس کی خام تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
گذشتہ پانچ عشروں کے دوران یمن کی اقتصادی صورتحال ابتر ہونے اور آج اس کا شمار عرب دنیا کے غریب اور پسماندہ ترین ممالک میں ہونے کی بنیادی وجہ اس ملک پر علی عبداللہ صالح اور منصور ہادی جیسے ڈکٹیٹرز کی آمرانہ پالیسیاں اور لوٹ کھسوٹ ہے۔ لہذا گذشتہ تین سالوں کے دوران آل سعود رژیم یمن کے قدرتی ذخائر پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اس بارے میں 2016ء میں معروف ویب سائٹ "وکی لیکس” نے یمن کے قدرتی گیس اور خام تیل کے ذخائر سے متعلق پس پردہ حقائق پر مبنی بعض اہم دستاویزات فاش کیں۔ ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب میں ایک خفیہ معاہدہ طے پایا ہے جس کی رو سے دونوں حکومتوں نے ایسے مشترکہ اقدامات انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے جن کے ذریعے یمنی عوام کو ملک میں موجود قدرتی ذخائر سے محروم کر دیا جائے۔
2)۔ اسٹریٹجک اہمیت کے حامل آبنائے باب المندب پر کنٹرول حاصل کرنا
یمن خاص طور پر اس کے جنوبی علاقوں کا اسٹریٹجک اور جغرافیائی محل وقوع بھی اس ملک پر سعودی حکومت کی فوجی جارحیت کے اہداف و مقاصد میں شامل ہے۔ سعودی رژیم یمن کے خلاف جنگ کی ابتدا سے ہی آبنائے باب المندب پر قبضہ کرنے کی خواہاں تھی۔ باب المندب ایک ایسا آبنائے ہے جو یمن کے جنوب میں واقع ہے اور خاص اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ اس آبنائے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سویز کینال کے بعد یہ دنیا کا دوسرا بڑا آبنائے محسوب ہوتا ہے۔ آبنائے باب المندب درحقیقت بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملاتا ہے۔ اسی طرح یہ آبنائے جنوب مغربی ایشیا کو مشرقی افریقہ اور یورپ سے بھی متصل کرتا ہے۔ مزید برآں، دنیا میں خام تیل کی کل تجارت اور تیل بردار جہازوں کی آمدورفت کا 6 فیصد حصہ آبنائے باب المندب کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ لہذا باب المندب پر کنٹرول آل سعود رژیم کیلئے وسیع اقتصادی مفادات کا حامل ہے۔ اس آبنائے پر جس کا بھی کنٹرول ہو گا وہ کسی بھی دوسرے ملک سے تنازعات کی صورت میں اس کی تجارتی کشتیوں کی آمدورفت روک کر مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔
یمن کے خلاف جنگ میں آل سعود رژیم کے نقصانات
یمن کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کو تقریباً تین سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود آل سعود رژیم مذکورہ بالا اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں مکمل ناکامی کا شکار ہوئی ہے۔ دوسری طرف یمن کی بہادر قوم، آرمی اور عوامی رضاکار فورسز کی مثالی شجاعت اور مزاحمت کے نتیجے میں سعودی رژیم کو شدید نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں۔ انصاراللہ یمن تحریک کے اعلی سطحی عہدیدار صادق الشرفی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ان تین سالوں میں صرف یمن کے ساتھ سرحدی علاقوں میں ہی سعودی عرب کے 4500 فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں سعودی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین سالوں کے دوران یمن آرمی اور عوامی رضاکار فورسز نے آل سعود رژیم کے ایک ہزار سے زیادہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح جارح سعودی اتحاد کے 40 ہیلی کاپٹرز، جنگی طیارے اور ڈرون طیارے بھی تباہ کئے جا چکے ہیں۔
یمن کے خلاف سعودی فوجی جارحیت جاری رہنے کے نتیجے میں آل سعود رژیم شدید اقتصادی مسائل کا شکار ہو چکی ہے۔ صرف 2015ء کے آخر تک یمن کی جنگ کے مد میں سعودی حکومت کے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 40 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اسی طرح 2016ء کے آغاز میں سعودی رژیم کا فوجی بجٹ 81 ارب ڈالر پر مشتمل تھا جو دنیا کے مختلف ممالک میں پیش ہونے والے فوجی بجٹس میں ایک بڑی مقدار تصور ہوتی ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت گذشتہ سولہ برس میں سب سے زیادہ بجٹ کے خسارے کا شکار ہو چکی ہے۔ سعودی عرب کا 2017ء بجٹ کا خسارہ 52 ارب ڈالر تھا جبکہ اس سے پہلے 2016ء کے بجٹ کا خسارہ 70 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے۔ اس حد تک خسارہ سعودی عرب کی تاریخ میں بے سابقہ ہے۔ مزید برآں، گذشتہ دو سال سے سعودی حکومت کی جانب سے اقتصادی محنت پر مبنی پالیسیاں اختیار کئے جانے کے باعث سعودی عوام شدید مالی دباو کا شکار ہیں۔ اس دباو کے نتیجے میں کئی عوامی احتجاجی تحریکیں بھی جنم لے رہی ہیں جن میں "ہمارے حقوق کافی نہیں” اور "ہمارے پیسے کہاں جا رہے ہیں” نامی تحریکیں قابل ذکر ہیں۔ یہ امر ملکی سطح پر سعودی خاندان کے خلاف بھرپور عوامی تحریک جنم لینے کا باعث بن سکتا ہے۔
نتیجہ
یمن کے خلاف جاری فوجی جارحیت کو تین سال مکمل ہونے کے بعد نہ صرف یمن آرمی اور عوامی رضاکار فورسز کمزور نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے اپنی اسٹریٹجک میزائل طاقت میں اضافہ بھی کیا ہے۔ گذشتہ تین برسوں میں یمن آرمی اور عوامی رضاکار فورسز نے کامیابی سے سعودی عرب کے فوجی اہداف حتی دارالحکومت ریاض میں واقع ٹھکانوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر ملک فہد اور ملک خالد آرمی بیسز کا نام لیا جا سکتا ہے جو یمن کے بیلسٹک میزائلوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یمامہ میں واقع صدارتی محل بھی یمن کے میزائل حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف سعودی فوجی اتحاد میں شامل دیگر جارح ممالک جیسے متحدہ عرب امارات کو بھی میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ میزائل حملے اس قدر موثر واقع ہوئے ہیں کہ حتی سعودی رژیم کے اصلی مغربی حامی ممالک جیسے برطانیہ اور امریکہ کی فریاد و پکار سنائی دینا شروع ہو گئی ہے۔ آج یمن کے خلاف ظالمانہ جنگ کو تین سال مکمل ہو گئے ہیں اور یمن کی شجاع قوم اور دفاعی قوتوں کی کامیابی کی تیسری سالگرہ تاریخ میں مرقوم ہو چکی ہے۔