کوئٹہ، سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ٹی ٹی پی کا اہم دہشتگرد گرفتار
شیعہ نیوز(پاکستان شیعہ خبر رساں ادارہ ) کوئٹہ میں پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی اور حساس اداروں نے مشترکہ کارروائی کے دوران کالعدم مذہبی تنظیم کے اہم دہشتگرد کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار دہشتگرد نے ٹارگٹ کلنگ کی 11 وارداتوں میں پولیس اور ایف سی اہلکاروں سمیت 16 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔ وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ گرفتار دہشتگرد افغانستان میں دہشتگردی کی تربیت لے کر آیا تھا۔ بلوچستان میں دہشتگردی کی وارداتوں میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ ا فغان اور بھارتی خفیہ ادارے ملکر بلوچستان میں دہشتگردی کرا رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے وزیراعلٰی سیکرٹریٹ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورائیہ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ پولیس جواد احمد، ایف سی غزہ بند اسکاؤٹس کے کمانڈنٹ کرنل ربنواز اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی اور حساس ادارے نے خفیہ اطلاع پر کوئٹہ میں ایک آپریشن کیا، جس کے دوران کالعدم تنظیم کے مقامی نیٹ ورک کے سرغنہ فضل الحق کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار دہشتگرد نے وارداتوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور سکیورٹی ادارے اپنے فرائض سے غافل نہیں اور دن رات ایک کرکے کام کر رہے ہیں۔ اسی کوششوں کے نتیجے میں درجنوں دہشتگرد حملے ناکام بنائے جاچکے ہیں، کئی خودکش حملہ آور بھی پکڑے گئے ہیں۔ ہم دہشتگردوں کو کسی بھی جگہ محفوظ ٹھکانے بنانے نہیں دینگے۔ وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ دہشتگرد اقلیتی برادری، نہتے اور بے گناہ افراد کو آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بنا رہے ہیں، یہ بزدلانہ کارروائی ہے۔ چرچ اور مساجد پر سکیورٹی انتظامات سخت ہونے کے بعد دہشتگرد آسان ہدف نشانہ اس لئے بناتے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکے کہ بلوچستان محفوظ نہیں۔ بلوچستان کے حالات پہلے سے کافی بہتر ہے۔
کالعدم مذہبی تنظیموں کی بعض کارروائیاں اپنی جگہ، لیکن گذشتہ دو سالوں میں قوم پرستی کے نام پر دہشتگردی کرنیوالی کوئی تنظیم ایک بھی واردات کوئٹہ میں نہیں کرسکی ہے۔ ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بھی مکمل معلومات اور حقائق معلوم ہونے کے بعد خبریں دینی چاہیئے، تاکہ صوبے کے لوگوں میں خوف و ہراس نہ پھیلے اور بلوچستان سے متعلق باقی ملک کو منفی تاثر نہ ملے۔ مسیحی برادری پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے، لیکن ہم صرف کالعدم تنظیم کے دعوے کی طرف نہیں دیکھ رہے۔ اگر کالعدم تنظیموں کے دعوے سچے ہوتے تو آج میں آپ کے سامنے نہ ہوتا۔ کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے ماضی میں چار دفعہ میری ہلاکت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ فائرنگ کا نشانہ بننے والے مسیحی برادری کے چار افراد میں سے تین افراد پنجاب سے مہمان آئے تھے۔ ان کی پنجاب میں آپس میں پہلے سے دشمنی تھی اور قتل وغیرہ بھی ہوئے تھے۔ ہم ٹارگٹ کلنگ اور دشمنی سمیت تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تفتیش کررہے ہیں۔ وزیراعلٰی بلوچستان نے کہا کہ ہم جنگی حالات میں رہ رہے ہیں۔ کوئٹہ افغانستان کے سرحد کے انتہائی قریب ہے اور دہشتگرد خفیہ راستوں سے افغانستان سے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ زبان اور دیگر بہت سی مشترکات کا دہشتگرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بھی دہشتگردی میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن پولیس، ایف سی اور سکیورٹی ادارے مستعد ہیں اور عوام کی حفاظت کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ رات پولیس، ایف سی، سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے خفیہ اطلاع پر سرچ آپریشن کیا اور انتہائی اہم دہشتگرد کو گرفتار کیا۔ گرفتار دہشتگرد فضل حق ولد مولوی عبدالستار قوم غبیزئی شیخ ماندہ کوئٹہ کا رہائشی ہے، جس نے دوران تفتیش تحریک طالبان پاکستان سے وابستگی کا اعتراف کیا اور اپنا تنظیمی نام خاکسار، ارمانی، ہدایت اللہ بتایا۔
ملزم نے گذشتہ دو ماہ کے دوران دہشتگردی کی 11 وارداتوں کا بھی اعتراف کیا، جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت سولہ افراد شہید ہوئے۔ ان وارداتوں میں سریاب پل پر دو مختلف وارداتوں میں آر آر جی اور بلوچستان کانسٹیبلری کے تین اہلکاروں کی شہادت، رئیسانی روڈ پر ٹریفک پولیس سپاہی، فاطمہ جناح روڈ پر سابق ایس ایچ او فضل الرحمان، مستونگ روڈ پر کسٹم کے پرائیوٹ کلرک، نادرا دفتر کے سامنے پارکنگ کے چوکیدار، دکانی بابا کے مزار کے قریب ریلوے لائن کی حفاظت پر مامور چار ایف سی اہلکاروں، سمنگلی روڈ پر ڈی ایس پی حمید اللہ دستی کی گاڑی پر فائرنگ اور دو اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں شامل ہیں۔ گرفتار دہشتگرد نے سرکی روڈ پر ٹریفک پولیس کانسٹیبل، قندہاری بازار میں ٹریفک پولیس سارجنٹ اور فتح خان روڈ کاسی روڈ پر ایکسائز کانسٹیبل کی ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا۔ گرفتار دہشتگرد فضل الحق کا ویڈیو بیان بھی اس موقع میڈیا کے نمائندوں کے سامنے نشر کیا گیا، جس میں ملزم نے بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان بلوچستان کے امیر پیر عین الزمان کے کہنے پر کوئٹہ میں دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے پانچ دہشتگردوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا گیا تھا، جس کا انچارج عاصم محمد عرف ذکریا عرف استاد الطاف عرف استاد ڈھکن تھا۔ گروپ نے کارروائیوں کیلئے غوث آباد میں ایک گھر کرایہ پر لیا تھا، جہاں بیٹھ کر دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ ملزم نے دوران تفتیش یہ انکشاف بھی کیا کہ عاصم عرف ذکریا کی بیوی بھی ان دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث تھی۔ عاصم اپنی اہلیہ کو کبھی موٹر سائیکل اور کبھی رکشہ میں ہر کارروائی کے دوران اپنے ساتھ رکھتا تھا اور غوث آباد والے گھر سے جائے وقوعہ تک اور پھر واپس گھر تک اس کی بیوی اسلحہ لانے اور چھپانے میں مدد کرتی تھی۔ گرفتار دہشتگرد نے بتایا کہ چونکہ پولیس اور سکیورٹی ادارے خواتین کی چیکنگ نہیں کرتے، اس لئے خاتون کو دہشتگردی کی وارداتوں کیلئے بطور سہولت کار استعمال کرتے تھے۔
گرفتار دہشتگرد نے یہ بتایا کہ ٹی ٹی پی بلوچستان کے امیر عین الزماں اور اس کے نائب حاجی لالہ اور ان کے دیگر ساتھی حافظ معاویہ، ایوب سواتی، داؤد محسود اور بلال محسود اس وقت بلوچستان سے ملحقہ افغان سرحدی شہر سپین بولدک میں موجود ہیں، ان کیمپوں میں لڑکوں کو پاکستان کے خلاف جنگ کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس حوالے سے ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ سپین بولدک میں ہی القاعدہ کا کیمپ بھی موجود ہے۔ گرفتار دہشتگرد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ افغان حکام نے انہیں افغان شناختی کارڈ اور تذکرہ بھی دیا ہوا تھا، تاکہ سرحد آسانی سے عبور کرسکیں۔ انہوں نے بتایا کہ دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے عین الزماں افغانستان سے عاصم کو رقم بجھوایا کرتا تھا، جس سے ہم لوگ اسلحہ اور دیگر اشیاء خریدتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے پاکستان آنے کیلئے وہ خفیہ راستے استعمال کرتے تھے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ گرفتار دہشتگرد کے قبضے سے ٹریفک سارجنٹ حفیظ نیازی کے واکی ٹاکی سیٹ بھی برآمد ہوئی ہے۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ گرفتار دہشتگرد کے باقی ساتھیوں کی گرفتاری کیلئے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ دہشتگرد عاصم ٹیکنیکل اسکول کالونی میں پیش امام کا بیٹا ہے اور اس کی بیوی وارداتوں میں ان کی مدد کرتی ہے۔ اس مکروہ عمل میں اب خواتین کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ افغان سرحدی شہر اسپین بولدک میں دہشتگردوں کو تربیت دے کر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ افغان حکام انہیں راہداری کے دستاویزات، خفیہ راستے کی سہولت، پیسہ اور پھر وارداتوں کے بدلے انعام دیتے ہیں۔ افغان خفیہ ادارہ این ڈی ایس اور بھارتی خفیہ ادارہ را ملکر پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشتگردی کرا رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت اور ریاست پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی سرپرستی کر رہی ہے۔ یہ سکیورٹی اداروں کی بڑی کارروائی ہے کہ یہ اس گروہ کا سراغ لگایا گیا ہے۔
فورسز نے گذشتہ دو ماہ کے دوران خودکش حملوں سمیت دہشتگردی کی درجنوں وارداتیں ناکام بنائی ہیں یہ پولیس، ایف سی ، سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں کی بڑی کامیابی ہے۔ مسیحی برادری پر حملے کی بھی تفصیلی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ اقلیتی برادری کے لوگ ہمارے بھائی ہیں، ہم انہیں کسی صورت تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ گذشتہ سال دسمبر میں کوئٹہ کے میتھوڈیسٹ چرچ پر ہونیوالے حملے کی تحقیقات میں بھی اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ جلد اس گروہ کو بھی پکڑ لیں گے۔ داعش اور کسی بھی کالعدم تنظیم کی باقاعدہ تنظیمی موجودگی بلوچستان کے کسی بھی حصے میں نہیں ہے۔ داعش کے نام پر اس لئے ذمہ داری قبول کی جاتی ہے کہ عالمی برادری میں پاکستان کو تنہاء کیا جائے۔ ایک دہشتگرد گروہ کو ختم کیا جاتا ہے تو افغان علاقوں میں موجود دہشتگرد کیمپوں سے نئے دہشتگرد تربیت دے کر پاکستان بھیج دیئے جاتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی آڑ میں دہشتگرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ افغان مہاجرین کو جلد سے جلد اپنے وطن واپس بھیجا جائے۔ قمبرانی روڈ پر واقعہ پرانی دشمنی کا واقعہ ہے، لیکن ہم قبائلی دشمنی کے نام پر بھی کسی کو قتل و غارت گری کی اجازت نہیں دے سکتے۔ واقعہ کی تحقیقات کرکے قانون کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔