ایسا کیوں ممکن نہیں؟
تحریر: سید اسد عباس
اس برس یوم النکبۃ کے موقع پر ساٹھ فلسطینیوں کے قتل اور ہزاروں کو زخمی کرنے کے اندوہناک واقعہ اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر جاری مسلسل جارحیت کے جواب میں ترکی، مصر، اردن اور بہت سے دیگر مسلمان ممالک نے اسرائیل میں قائم اپنے سفارت خانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور اپنے ملکوں میں موجود اسرائیلی سفارتخانوں سے اسرائیلی سفارتکاروں کو بے دخل کرتے ہوئے وہاں فلسطینی تحریک آزادی کے عجائب خانوں کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عرب لیگ کے اجلاس میں طے پایا کہ مسلم امہ ایک جسد واحد کی مانند ہے، لہذا فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کے جواب میں عرب لیگ میں شامل ممالک اسرائیل کے مختلف اداروں، شخصیات اور اسرائیلی حکومت جن کے ہاتھ فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جن کی عالم اسلام کے خلاف سازشیں کسی سے پنہاں نہیں ہیں، کے خلاف سخت اقتصادی پابندیوں کا اعلان کرتے ہیں۔ اسرائیلی مسلح افواج خصوصاً فضائیہ جو کہ مختلف مسلمان ممالک میں متعدد مرتبہ جارحیت کی مرتکب ہوئی ہیں، کے خلاف بھی اقتصادی اور سفری پابندیوں کا اعلان کیا گیا۔
او آئی سی کے ایک ہنگامی اجلاس میں فلسطین میں جاری جارحیت کے خلاف قرارداد مذمت کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور فلسطینیوں کے قتل میں ملوث عالمی امن کے لئے خطرے کے حامل اداروں، اسرائیلی مسلح افواج، اسرائیلی فضائیہ، اسرائیل کے میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے وابستہ متعدد افراد، موساد کے جاسوسوں نیز ان تمام اداروں کے ساتھ تعاون کرنے والے تمام ممالک، اداروں اور شخصیات کے خلاف سخت اقتصادی اور سفری پابندیوں کا اعلان کیا گیا۔ او آئی سی کے اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ امت مسلمہ ایک اکائی کا نام ہے، مسلم ممالک کی ریاستی سرحدیں انتظامی حیثیت کی حامل ہیں، دین کی تعلیمات کی روشنی میں دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہنا ہمارے دین سے متصادم ہے، لہذا اس مذہبی ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے ہم تلوار، ہاتھ اور زبان سے جہاد کو جاری رکھیں گے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ وہ ممالک، کمپنیاں اور ادارے جو اسرائیل کے مذکورہ اداروں کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں، ان کو مسلم ممالک میں کاروبار اور سفر کی اجازت نہیں ہوگی۔
او آئی سی کے اس ہنگامی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں جاری ستر برس سے زائد عرصے پر محیط بھارتی ریاستی دہشت گردی اور جارحیت کا بھی نوٹس لیا گیا اور بھارت کو او آئی سی کی گرے لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ امید ہے کہ اگر بھارت نے کشمیر میں ریاستی تشدد اور جارحیت کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ بھی اسرائیل کی مانند اقتصادی و سفری پابندیوں کا شکار ہوگا، جس سے اس کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ او آئی سی ممالک میں کام کرنے والے لاکھوں بھارتی شہری جو اربوں ڈالر زر مبادلہ بھارت میں بھیجتے ہیں، ان پابندیوں کے بعد وہ نہ بھیج سکیں گے۔ او آئی سی کے اس ہنگامی اجلاس میں یمن، شام، لیبیا اور افغانستان میں جاری تنازعات کے پرامن حل کے لئے بااختیار ثالثی کیمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا گیا اور مغربی ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان معاملات میں مداخلت کو ترک کر دیں۔ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس عرب ممالک سے اپنے فوجی اڈوں کا فی الفور خاتمہ کریں۔ اس اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ اگر امریکہ نے عالمی قوانین اور یو این قراردادوں کی پاسداری کرتے ہوئے بیت المقدس سے اپنا سفارت خانہ واپس تل ابیب منتقل نہ کیا تو اسے بھی او آئی سی کی گرے لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں مظلوم فلسطینیوں، کشمیریوں، یمن کے باسیوں، شام کے پناہ گزینوں، لیبیا کے محروموں، افغانستان کے مظلوموں اور دنیا بھر میں موجود غریب مسلمانوں کی بحالی کے لئے بین الاسلامی فنڈ کا اعلان کیا۔
دوسری جانب سعودیہ کی قیادت میں بننے والے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا اہم اجلاس اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں ہوا۔ اس اجلاس میں رکن ممالک کے جرنیلوں نے فلسطین، کشمیر، یمن، شام، لیبیا میں جنگی صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس اجلاس میں اسرائیل کی مسلم ممالک پر بڑھتی ہوئی جارحیت کا نوٹس لیا گیا اور کہا گیا کہ اگر اسرائیل نے لبنان، شام اور فلسطینی مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو عساکر اسلامیہ کے دستے نیٹو اور ایساف کی مانند سرزمین اسلام کے چپہ چپہ کو واگزار کروانے اور اس کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں اتریں گے اور دشمن کو خیبر کا معرکہ یاد دلا دیں گے۔
قارئین کرام! آنکھیں کھول لیجیے۔ مذکورہ بالا باتیں مبالغہ نہیں ہیں، نہ ہی کوئی ایسی انہونی چیزیں ہیں، جس کی اس سے قبل دنیا میں کوئی مثال موجود نہ ہو۔ امریکہ تن تنہا اس طرح کے مطالبات بہت سے ممالک سے کر رہا ہے۔ ایران، شام، عراق، سوڈان، شمالی کوریا، کیوبا، وینزویلا، یمن دہائیوں سے امریکی پابندیوں کا شکار ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں ایران پر مزید پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے، جس سے یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بے چینی کی فضا ہے۔ وہ کام جو امریکہ تن تنہا کرسکتا ہے، امت مسلمہ کے پچاس سے زیادہ ممالک مل کر بھی کرنے کی ہمت و جرات نہیں رکھتے۔ نہ تو وسائل کی کوئی کمی ہے، نہ دولت کسی سے کم، نہ ایسا ہے کہ مسلمان ماؤں نے بہادر سپوت جننے چھوڑ دیئے۔ اس کے باوجود ہم
اپنا جائز حق بھی اقوام عالم سے نہیں لے سکتے۔
کمی ہے تو قوت ایمان کی، بقول اقبال اس امت کے جسد سے روح محمد ؐ کو نکالا جا چکا ہے۔ روح محمد ؐ نکلنے کے بعد کسی بھی قوم سے اس سے بھی پست تر رویہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے مقابل روح ابوجہل اور روح شیطان اپنے پورے جوبن کے ساتھ مسلمانوں کو (ھل من مبارز) کا چیلنج دے رہی ہے۔ ایمان باللہ ہی وہ بنیادی عقیدہ ہے، جو اس چیلنج کو قبول کر سکتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے، جو انسان کو انسانوں کے آگے جھکنے، لوٹ کھسوٹ کے ذریعے سرمایہ اکٹھا کرنے، اپنے فائدے کے لئے دوسرے کا نقصان کرنے، اپنی ہی بانسری بجانے، وقتی ذاتی فائدے کے لئے قومی مفاد کو پس پشت ڈالنے، اقتدار کی ہوس، بزدلی، غلامی اور اس جیسی لاتعداد امراض سے بچاتی ہے۔ پس ہمیں بحیثیت مسلمان ہتھیاروں، جنگی ساز و سامان، وسائل، ٹیکنالوجی سے زیادہ اللہ پر ایمان اور اسلامی احکامات پر یقین کی ضرورت ہے۔ یہی ایمان روح محمد ؐ کا منبع و ماخذ ہے، اللہ پر یقین اور اس کے احکامات پر عمل ہی ایک مسلمان کو حقیقی مسلمان بناتا ہے۔ وہ مسلمان جو امت وسط ہے اور جس کو افضل ترین امت قرار دیا گیا ہے۔ روح محمدؐ اور اللہ پر ایمان کے بغیر ہماری حیثیت چلتے پھرتے، جیتے جاگتے، سانس لیتے مردہ جسموں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو مشرکوں جیسی زندگی سے نکال کر اللہ پر ایمان رکھنے والوں جیسی زندگیاں عطا فرمائے۔آمین
ارشاد رب العزت ہے:”اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ”