Uncategorized

لاہور، بادشاہی مسجد میں شیعہ سنی کی مشترکہ افطاری، وحدت کی عظیم مثال

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد اس وقت وحدت کی عظیم مثال بن گئی، جب حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادتِ باسعادت کی مناسبت سے سماجی تنظیم ’’خیال نوء‘‘ کی جانب سے اہلسنت اور اہل تشیع کیلئے مشترکہ افطاری کا اہتمام کیا گیا اور افطاری کے بعد شیعہ سنی مکاتب فکر کے افراد نے خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد کی امامت میں مشترکہ نماز مغرب بھی ادا کی۔ اس افطار پارٹی میں چاروں مسالک کے علمائے کرام اور دیگر مذہب کے عمائدین بھی شریک ہوئے۔ اس سے قبل بھی پنجاب یونیورسٹی میں نماز وحدت ادا کی گئی تھی، جس میں تمام مکاتب کے افراد اور جید علمائے کرام نے شرکت کی تھی۔ لاہور میں اظہار وحدت کا یہ دوسرا بڑا موقع تھا، جس میں تمام مکاتب فکر نے شرکت کی۔ اس تقریب میں چاروں مسالک کیساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے رہنماؤں نے بھی شرکت کرکے وطن سے محنت کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے سماجی تنظیم خیال نوء کے فعال رہنما حسنین ترمذی کی کوششیں لائق تحسین ہیں، جنہوں نے تمام مکاتب فکر کے علمائے سے رابطے کئے اور اس تقریب کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام دشمن قوتوں نے ہمیشہ سے یہ چاہا ہے کہ مسلمانوں کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرکے اپنے ناجائز مقاصد پورے کئے جائیں، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ایک تکفیری گروہ کی آبیاری کی گئی، جنہوں نے پورے ملک میں کافر کافر کے ایسے نعرے لگوائے، اس آگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ملک کی جید شخصیات جن میں علمائے کرام، بیوروکریٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین تعلیم سمیت دیگر شامل تھے، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ بے گناہوں کا خون ہوا، ہزاروں گودیں اجڑیں، ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں، کئی بچے یتیم ہوئے، مگر ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ دہشتگردی کا یہ عفریت اتنا زیادہ بڑھا کہ آگ اے پی ایس پشاور تک پہنچ گئی۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں یہ واقعہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور آپریشن ضرب عضب اور پھر آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا، ملک بھر سے چن چن کر دہشتگردوں کو مارا گیا۔

سی ٹی ڈی نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے دہشتگرد جو جیلوں میں ’’محفوظ‘‘ تھے، ان کو نکال کر مارا گیا۔ ایک دوسرے کے دشمن بنتے شیعہ سنی بے گناہوں کے خون کی بدولت پھر ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں۔ وحدت کے فروغ اور اظہار کیلئے جہاں سماجی تنظیم خیال نو نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے، وہاں مزید بھی ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے پیروکاروں کو برداشت کا درس دیں۔ جیو اور جینے دو کے زریں اصول پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ دشمن کی ابھی بھی یہ کوشش ہے کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے لڑاتا رہے، اس مقصد کیلئے وہ بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس لئے ہمارے علمائے کرام کو بیدار مغزی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان روز اول سے دشمنان اسلام کا نشانہ ہے۔ روز اول سے ہی سازشیں کی جا رہی ہیں، جو عروج پر ہیں مگر ان سازشوں کا مقابلہ ہم وحدت کے ہتھیار سے ہی کرسکتے ہیں۔

اس حوالے سے لاہور کے مسیحی رہنماؤں، ہندو اور سکھ کمیونٹی کی جانب سے بھی بھرپور تعاون کا اظہار حوصلہ افزاء ہے۔ پاکستان کی تمام اقلیتیں ملک میں امن کی خواہاں ہیں، جب اقلیتوں کی جانب سے وطن سے محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے تو شیعہ اور سنی تو اس ملک کے بنانے والے ہیں، انہیں اس ملک کی فکر زیادہ ہونی چاہئے۔ جہاں خیال نو تنظیم نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے، وہاں دیگر جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ رمضان رحمتوں کا مہینہ ہے۔ اس کی برکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، رمضان المبارک میں ہی مشترکہ افطاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا جائے، جس میں تمام مسالک کے علماء اور افراد شریک ہوں تو اس سے دنیا میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ مسلمان امن پسند قوم ہے، انہیں امن سے ہی محبت ہے، اس لئے امن کے فروغ کیلئے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا جائے، تاکہ جہاں ایک طرف اسلام دشمن قوتوں کو شکست ہوگی، وہاں باہمی وحدت کے فروغ سے اسلام کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button