مسئلہ فلسطین اور امام خمینی کی نظر
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
جون کا مہینہ ہے اور ساتھ ساتھ ماہ رمضان المبارک بھی ہے، اس ماہ مقدس میں فلسطین کے مظلوم عوام اور قبلہ اول کی بازیابی سے متعلق عالمی یوم القدس بھی آنے والا ہے، جس کے احیاء و قرار میں اس صدی کی عظیم اسلامی شخصیت حضرت امام خمینی کا بے پناہ اور بنیادی کردار ہے اور اسی جون کی 4 تاریخ کو ہی صدی کے عظیم اسلامی رہنما حضرت امام خمینی کو ہم سے بچھڑے اب اٹھائیس برس ہوچکے ہیں، لہذا یہ کالم فلسطین اور امام خمینی سے متعلق اس لئے بھی لکھا جا رہا ہے، تاکہ امام خمینی کی شخصیت سے متعلق اور مسئلہ فلسطین امام خمینی کی نظر میں کس اہمیت کا حامل تھا، نقاط کو بیان کیا جائے۔ امام خمینی نے ایران میں اسلامی انقلاب کی بنیاد ڈالی اور یہ انقلاب 1979ء میں کامیاب ہوا، اس انقلاب کی کامیابی کا بنیادی سہرا امام خمینی کے سر جاتا ہے، جبکہ امام خمینی نے ایران میں اس وقت کے امریکی و صیہونی آلہ کار حکمرانوں کے مدمقابل نہ صرف قیام کیا بلکہ فلسطین کے حق میں اس دور میں بات کرنا ایک سنگین جرم سمجھا جاتا تھا، ایسے دور میں آپ نے اپنی پوری جدوجہد میں فلسطین کاز کی حمایت سے ایک انچ بھی خود کو پیچھے نہیں کیا، حالانکہ اس جرم کی پاداش میں آپ کو دربدر کیا گیا، جلا وطن کیا گیا اور نہ جانے آپ کے ساتھیوں کے ساتھ بھی کس کس طرح کے مظالم روا رکھے گئے۔ آپ نے دنیا کی ان تمام سختیوں اور مصائب کا خندہ پیشانی اور دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ نے عملی طور پر سب سے پہلے ایران میں موجود اسرائیلی سفارتخانہ کو ختم کرکے اس جگہ کو فلسطینی سفارتخانہ بنایا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے یوم القدس کے طور پر منائیں۔
یہ امام خمینی ہی کی شخصیت تھی، جس نے دنیا پر واضح طور عیاں کیا کہ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے، اس کام کے لئے امام خمینی نے اپنے خطابات اور فرامین میں بھرپور انداز سے پیغامات دیئے حتیٰ دنیا کے دیگر ممالک کے رہنماؤں کے لکھے جانے والے خطوط اور خط و کتابت میں بھی امام خمینی کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے لئے ہمیشہ بے حد اسرار پایا جاتا تھا۔ آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیا اور پوری دنیا میں اس روز مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کا حکم صادر فرمایا۔ یوم القدس کے بارے میں امام خمینی کا کہنا تھا کہ یہ ایسا دن نہیں کہ جو فقط قدس کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ مستکبرین کے ساتھ مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ منافقین اور وہ لوگ جن کی پس پردہ بڑی طاقتوں کے ساتھ آشنائی اور اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے، وہ یوم القدس سے لاتعلق رہتے ہیں یا قوموں کو مظاہرہ نہیں کرنے دیتے۔ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین سے متعلق مسلمان اور عرب حکومتوں اور دنیا کی طرف سے سست روی کو درک کرتے ہوئے مسلمان اقوام کو جھنجھوڑنے کا کام کیا اور مسئلہ فلسطین کی حمایت اور پشتبانی کے لئے اپنی گفتگو میں اس طرح اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ،’’ہم جب تک رسول اللہ (ص) کے اسلام کو نہ اپنالیں، ہماری مشکلات اپنی جگہ پر باقی رہیں گی۔ نہ مسئلہ فلسطین کو حل کر پائیں گے اور نہ ہی مسئلہ افغانستان اور دوسرے مسائل کو لوگوں کو اوائل اسلام کی طرف پلٹ جانا چاہیے، اگر حکومتیں بھی ان کے ساتھ پلٹ گئیں تو کوئی مشکل نہیں رہے گی۔ لیکن اگر حکومتیں نہ پلٹیں تو عوام کو چاہیے کہ اپنا حساب حکومتوں سے الگ کرلیں اور حکومتوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ملت ایران نے اپنی حکومت کے ساتھ کیا ہے، تاکہ مشکلات دور ہوجائیں۔”
امام خمینی نے ہمیشہ مسلمان اقوام کے اتحاد و یکجہتی کو فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کا اہم ترین راز اور منبع قرار دیا اور یہی کہا کہ فلسطین کی نجات اور صیہونزم کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کا واحد راستہ مسلمانوں کی اسلام کی طرف بازگشت اور ان کا آپس میں اتحاد ہے۔ انہوں نے اس چیز پر زور دینے کے ساتھ ساتھ فرمایا ہے کہ ’’اسرائیل کا اصلی مقصد اسلام کو نابود کرنا ہے‘‘ ہمیشہ اس چیز کی بھی تاکید کی ہے کہ ہر طرح کے اختلافات منجملہ مذہبی اختلافات کو ختم کر دیا جائے۔ یہاں ایک نقطہ اہم ترین یہ بھی ہے کہ امام خمینی کا تعلق مسلک تشیع سے تھا، لیکن فلسطین سمیت دنیا کے کسی بھی مظلوم اقوام بشمول افغانستان اور کشمیر کے لئے آپ نے ہمیشہ نہ صرف تاکید فرمائی بلکہ عملی طور پر بھی فلسطین کے مظلوم اقوام کی حمایت کرکے ثابت کر دیا کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے اگر کوئی بھی مسلکی اختلافات کو ابھارنا چاہے یا ہوا دے کر اس مسئلہ کی اہمیت کو کم کرنا چاہے گا تو یقیناً وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں بلکہ استعماری قوتوں کا آلہ کار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے فلسطین کے مظلوم اقوام کی حمایت اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے کسی بھی حمایت سے دریغ نہیں کیا۔ امام خمینی مسئلہ فلسطین کو اسلام کی حیثیت سے مربوط سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ تمام مسلمانوں کو فلسطینیوں کی مدد پر ابھارتے تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ فلسطین کی مشکل دنیائے اسلام کی مشکل ہے۔ امام خمینی مٹھی بھر صیہونیوں کی ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں پر حکمفرمائی
کو ننگ و عار سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے:’’وہ ممالک جن کے پاس سب کچھ ہے اور ہر طرح کی قدرت سے سرشار ہیں، ان پر چند اسرائیلی کیوں حکمرانی کریں؟ ایسا آخر کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قومیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں۔ عوام اور حکومتوں میں جدائی ہے اور حکومتیں آپس میں متحد نہیں ہیں۔ ایک ارب مسلمان باوجود یہ کہ ہر طرح کے وسائل سے لیس ہیں، لیکن پھر بھی اسرائیل، لبنان اور فلسطین پر ظلم کر رہا ہے۔”
جیسا کہ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارے دشمن امریکہ، اسرائیل اور استعماری قوتوں کا مقصد صرف فلسطین پر قابض ہونے تک مخصوص نہیں بلکہ وہ اسلام کو نشانہ بنا رہے ہیں، آج کئی برس گزر جانے کے بعد پوری دنیا کے مسلمان اس بات کو سمجھ پائے ہیں کہ عالمی استعماری قوتوں کا اصل ہدف اسلام ہے اور اسلام کے سنہرے اصولوں کو کبھی دہشت گردی کا لیبل لگا کر مختلف ناموں کے ساتھ منسلک کرکے بدنام کرنے کی گھناؤنی سازشیں عالمی استعماری قوتوں کے ناپاک و گھناؤنے عزائم کی قلعی کھول چکی ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں امام خمینی کی جانب سے قرار دیئے جانے والے جمعۃ الوداع عالمی یوم القدس کی مناسبت سے ہمیں ملتا ہے کہ امام خمینی نے ایرانی قوم سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ جمعۃ الوداع یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ اور یوم اسلام ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار (امریکہ، برطانیہ، اسرائیل) کی خدمت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر مقامات پر امام خمینی کے فرامین و فتاویٰ میں اس دن کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع یوم القدس حق اور باطل کے درمیان علیحدگی کا دن ہے۔ مزید فرامین میں اس طرح ملتا ہے کہ یوم القدس دنیا بھر کے مظلوموں کی ظالموں کے مقابلے میں فتح کا دن ہے، یوم القدس اسلام کی بقاء وحیات کا دن ہے، یوم القدس استعماری قوتوں کے خاتمہ اور فنا کا دن ہے، اس طرح کے متعدد فرامین کے ساتھ ساتھ یوم القدس اور مسئلہ فلسطین کے لئے مسلمان حکمرانوں کے کردار پر امام خمینی نے بہت زیادہ اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج سے چالیس سال قبل فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے مقرر کیا جانے والا یوم القدس آج بھی پوری دنیا میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا کی تمام اقوام کی جانب سے بالخصوص ملت فلسطین کی جانب سے انتہائی جوش و جذبہ اور عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہی استعماری قوتوں اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا سب سے بڑا منہ بولتا ثبوت ہے۔