پاکستان کے پرانے دشمنوں کی نئی چالیں
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
جنگیں عام طور پر مال و اقتدار کے لئے لڑی جاتی ہیں، جسے عموماً ڈپلومیسی اور میڈیا کی زبان میں لفظ مفادات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز میں انہی مفادات (مال و اقتدار ) کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انہی کی حفاظت کی خاطر قربتیں اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج انہی کے تحفظ کی خاطر مختلف حیلے بہانے، نرمیاں، سختیاں، جان و مال اور آبرو سب کچھ داو پر لگائی جاتی ہے۔ اسی ہدف کے حصول کے لئے دین و مذہب، قوم و قبیلہ ہر چیز کو استعمال کیا جاتا ہے. مال و اقتدار کے سوداگر دنیا کے سامنے ہمیشہ اپنی سیاہ کاریوں کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرتے ہیں اور ادب و لغت و صحافت کے میدان کے کھلاڑی پرکشش اصطلاحوں اور تعبیرات و تفسیرات کے دامن میں بھیانک نتائج کی عفونت و بدبو کو چھپاتے ہیں. اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ وہ عرف عام میں سچ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر زمانے کی روش کے بالعکس اگر کوئی سچ بولنے کی جرات کرے تو سب اسے جھوٹا اور انتہا پسند یا فتنہ پرداز جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب امریکہ نے 70 کی دہائی میں کیمونسٹ پیش رفت کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اخوان المسلمین سے تعاون مانگا، چنانچہ اسامہ بن لادن کو میدان میں اتارا گیا۔ دوسری طرف پاکستانی اخوان المسلمین یعنی جماعت اسلامی اور انکی ہم فکر دینی و قومی جماعتوں کے تعاون سے جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا اور اخوانی فکر کا حامی فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آیا اور یوں ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر بے دین اور کیمونسٹ ہونے کا الزام لگا اور انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس طرح کیمونزم کا مقابلہ کرنے کے بہانے سلفی و وہابی نرسریاں اگانے کے لئے پورا ملک سعودی عرب کو ٹھیکے پر دے دیا گیا۔
ہم نے پاکستان تو سعودی عرب کو جہادی ٹھیکے پر دے دیا، لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے آنکھیں بند کئے رہے کہ افغانستان کی آبادی تین بڑی قومیتوں پر مشتمل ہے۔ ازبک، ہزارہ اور پختون۔ افغان پالیسی مرتب کرتے وقت پاکستان کے قومی مفاد کو نظر انداز کیا گیا اور متوازن پالیسی نہیں بنی بلکہ سعودی و امریکی تعصب کی بنا پر پالیسی بنائی گئی۔ جب پاکستان نے سعودی و امریکی ایما پر فقط پختون قومیت کے متعصب دینی فکر ایک بڑے طبقے کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بنایا تو ایسے میں انڈیا نے اپنی توجہ پختونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں پر دی اور بالخصوص تاجک قوم کو اپنے قریب کیا۔ جب طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان کے اسٹریٹیجیکل پارٹنر اور ایسٹس پختونوں کی بھی ایک بڑی تعداد انڈیا کی گود میں جا بیٹھے۔ ہمیں تاجک اور ہزارہ کو دور رکھنے کے نقصان کا اندازہ اس وقت ہوا، جب افغانستان میں بننے والی نئی حکومت میں وہ لوگ اوپر آئے جنکی انڈیا سے قربتیں اور تعلقات تھے۔ جس افغانستان کے لئے ہم نے اپنے ملک کا امن و اقتصاد داو پر لگایا تھا، اس افغانستان میں ہمارا دشمن پوری طاقت کے ساتھ ابھر کر برسرِ اقتدار آگیا تھا، لیکن ہم نے اس حقیقت سے اپنی عوام کو غافل اور ثانوی مسائل میں الجھائے رکھا۔ ہم اب قوم کو کیسے بتاتے کہ ہم نے فقط ایک تہائی کے بھی ایک حصے پر اعتماد کیا تھا اور دو تہائی کو تو یکسر نظر انداز کیا تھا اور اب وہ ایک تہائی بھی ہمارے دشمن کے اثر و نفوذ کا شکار ہے، بلکہ دشمن انہیں کے ذریعے آج ہمارے ملک کے امن کو تباہ کر رہا ہے۔ وہ ایک تہائی جنہیں ہم نے گلے لگایا تھا، اب وہی ہمارے ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے کرتے ہیں اور جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی جیسی اخوانی فکر رکھنے والی تنظیمیں ان کی سہولتکار بنی ہوئی ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا میں شایع ہونے والی رپورٹس اور خبروں کے مطابق آج کل افغانستان کی اہم شخصیات سعودی عرب کے خصوصی دورے کر رہی ہیں اور گذشتہ سال سعودی وفود بھی کردستان عراق کے خفیہ دورے کرچکے ہیں۔ میڈیا ذرائع کے مطابق افغانستان سکیورٹی کونسل کے مشیر حنیف اتمر نے سعودی عرب کا رسمی دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ سعودی اخبار الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف اتمر نے کہا کہ اس دورے کا مقصد دوطرفہ برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے اور خطے میں امن قائم کرنے میں سعودیہ کا بنیادی کردار ہے۔ افغانستان اس وقت دہشتگردی کا شکار ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سعودیہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ امت مسلمہ میں ایک سربراہی کردار کی حیثیت سے ہم امیدوار ہیں کہ سعودیہ افغانستان میں قیام امن اور دہشتگردی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ خدا کرے یہ بات صحیح ہو، لیکن جو چھپایا گیا ہے، وہ کہیں زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب ایک سال سے داعش کو عراق سے افغانستان منتقل کرنے میں بالخصوص شمال افغانستان منتقل کرنے میں مصروف ہے، تاکہ کہ یہ خبریں پھیلنے نہ پائیں۔ اوکو بلنٹ روسی سائٹ نے رپورٹ نشر کی تھی کہ گذشتہ سال دیوان ملکی سعودیہ کے مشیر ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالعزیز بن محمد الربیعہ نے کردستان عراق کا دورہ کیا اور مسعود بارزانی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ایک اجلاس ہوا، جس میں اربیل میں سعودی کونسلر عبدالمنعم عبدالرحمن محمود، کردستان سکیورٹی کے مشیر مسرور بارزانی پاکستانی وزارت دفاع کے سیکرٹری جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ اور سعودی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے سربراہ کے نائب می
جر جنرل احمد حسن عسیر نے شرکت کی۔
یہ اجلاس جو بتاریخ 2/5/2017 کو کردستان سکیورٹی کونسل کے مرکز میں منعقد ہوا اور اس کا ایجنڈا پاکستان، کردستان اور سعودی انٹیلیجنس کے تعاون سے داعش کو موصل سے شمال افغانستان منتقل کرنے کا پروگرام تشکیل دینا تھا۔ سعودیہ نے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے 80 ملین ڈالرز کا بجٹ فراہم کیا اور اس اجلاس میں طے پایا کہ 1800 داعشی موصل سے شمال افغانستان بھیجنے کے لئے پہلے عراق کے اربیل ائرپورٹ سے پاکستان بھیجے جائیں گے اور وہاں سے افغانستان منتقل کئے جائیں گے۔ رپورٹس میں آیا ہے کہ اخوانی فکر کے حامل لیڈرز عبد رب الرسول سیاف اور گلبدین حکمتیار بھی حنیف اتمر سے پہلے سعودی مسئولین کی رسمی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں اور اہم شخصیات بالخصوص محمد بن سلمان سے ملاقات کرچکے ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق حکمت یار اور سعودی مسئولین کے مابین طے پایا ہے کہ جبھۃ النصرۃ (القاعدہ) اور جیش العدل کی لیڈرشپ کو افغانستان منتقل کیا جائے گا. اس منصوبے کے تحت تکفیری دہشتگردوں کو دو مرحلوں میں منتقل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ان دونوں گروہوں کے لیڈروں کو امریکی طیاروں کے ذریعے افغانستان منتقل کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں انکے عام دہشتگردوں کو تاجکستان اور پاکستان کی سرحدوں سے افغانستان بھیجا جائے گا۔ عبدالرسول سیاف نے سعودی فرمانروا ملک سلمان کے دینی امور کے مشیر عبداللہ مطلق اور صالح السیحیباتی سے بھی ملاقات کی۔ سیاف شمال افغانستان کا ایک تاجک جنرل اور عسکری راہنما ہے اور حکمتیار افغانستان میں اخوانی فکر اور حزب اسلامی (جماعت اسلامی) کا رہنما ہے۔
تاجک قومیت کے پرانے اور پختون قومیت کے انڈیا سے نئے تعلقات اور ہزارہ قبیلے پر پاکستان و افغانستان میں آئے دن حملے پاکستان کے امن و استقلال کے لئے ایک بنیادی تھریٹ ہیں۔ اس وقت پاکستان کے خلاف امریکی، اسرائیلی، سعودی، افغانی اور انڈین گٹھ جوڑ اور پاکستان کی کالی بھیڑوں کی شرکت ہمارے وطن کی سلامتی کے لئے نیا چیلنج ہے۔ اس وقت پاکستان کے افق پر سیاہ گھٹائیں گردش کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستانی عوام کو صحیح حالات اور صورتحال سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ملک کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کے مابین افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنا اور ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ اسٹریٹجی تیار کرنا، اس کا میکنزم بنانا اور حکومت و محب وطن عوام اور مسلح افواج کے مابین انسجام سے ہی یہ مرحلہ عبور کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں دوست ممالک بالخصوص ہمسایہ قابل اعتماد برادر ملکوں سے قریبی تعلق و تعاون وقت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ امریکہ و اسرائیل اور انکے اتحادی، لیبیا و عراق و شام کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے بعد اب انکے منحوس قدم پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور چین کا باہمی اقتصادی تعاون ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ٹرامپ و حکمتیار ایک ہی طرز کے بیانات داغ رہے ہیں۔ 30 جنوری 2018ء کو ایرانی سپریم لیڈر نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنے عسکری وجود کو باقی رکھنے کے جواز کے طور پر عراق اور شام میں شکست کے بعد داعش کو افغانستان منتقل کر رہا ہے اور اس سے پہلے اور بعد کئی ایک ایرانی اور روسی مسئولین بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں اور یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ خطے کے امن کے لئے داعش کی اس منتقلی کو روکا جائے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے ضامن اداروں اور عوام کو اپنے ملک کے خلاف ابھرتے ہوئے نئے خطرات کو بروقت محسوس کرتے ہوئے مناسب جوابی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔