ایران حوثیوں کی کیسے مدد کرتا ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
یہ دعویٰ کہ ایران حوثیوں کی مدد کر رہا ہے، 2015ء میں یمن پر حملے کے ابتدائی ایام میں ہی سامنے آچکا تھا۔ یمنی بندرگاہ الحدیدہ پر ہونے والی حالیہ کارروائی کے حوالے سے بھی سعودی اعلیٰ عہدیداروں نے یہی کہا کہ اس حملے کا مقصد یمن میں ایک نئی حزب اللہ کے قیام کو روکنا، ایرانی تسلط کا خاتمہ، اسلحہ کے حصول پر نظر رکھنا اور باب المندب کو محفوظ بنانا ہے۔ یہ دعویٰ کرنے والے یمن کے حدود اربعہ، اپنی طاقت اور بحری و زمینی تسلط سے بخوبی آگاہ ہیں۔ تاہم وہ جن کو سنا رہے ہوتے ہیں، ان کے لئے سعودیہ یا امارات کا کہنا ہی کافی ہے۔ مغربی میڈیا اسی راگنی کو ذرا اونچے سروں میں الاپتا ہے، کیونکہ اس راگ میں ہی اس کا حقیقی ہدف چھپا ہوا ہے۔ مغرب عرب دنیا کو باور کروانا چاہتا ہے کہ ایران آپ کا دشمن ہے اور آپ پر تسلط کا خواہاں ہے۔ وہ دنیا میں یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا دو بلاکوں پر مشتمل ہے، جس میں ایک بلاک ایران کے زیر اثر ہے تو دوسرا نسبتاً بڑا بلاک سعودیہ کے تحت ہے۔ پاکستان میں ہم نے مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے قائدین کو یہ کہتے سنا ہے کہ پاکستان کو سعودیہ ایران جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ عام عوام کے تو کیا کہنے۔
اس دعویٰ کی حقیقت کو جاننے کے لئے یمن کا حدود اربعہ جاننا نہایت اہم ہے۔ یمن سعودیہ کی جنوبی سرحد پر واقعہ ہے، جس کے جنوب میں بحر ہند ہے۔ یمن کے مغرب میں باب المندب کی خلیج اور مشرق میں حضر موت کے بڑے صحرا کے علاوہ عمان کا ملک ہے۔ یمن کی شمالی سرحد سعودیہ سے ملتی ہے۔ جنوب اور مغرب میں موجود سمندر میں سعودی اتحاد کے علاوہ عربوں کے بڑے اتحادی یعنی مغربی ممالک کے بحری بیڑے موجود ہیں، جو ان پانیوں میں ہونے والی ہر نقل و حرکت کو نوٹ کرتے ہیں۔ 2015ء میں یمن پر فضائی کارروائی کے آغاز کے وقت سے تو ایک گندم کا دانہ بھی اتحادی بحری جہازوں کی اجازت کے بغیر یمن کی بندرگاہ الحدیدہ تک نہیں پہنچا۔ یہ دعویٰ بھی سامنے نہیں آسکا کہ یمن میں ہتھیار عمان کے ذریعے آرہے ہیں۔ حضر موت کا علاقہ جہاں القاعدہ کی بچی کچی قیادت کی پناہ گاہیں ہیں، امریکی ڈرون طیاروں اور امریکی و مغربی انٹیلی جنس کے زیر نظر ہیں۔ اس علاقے میں امریکہ نے متعدد ڈرون حملے کئے اور القاعدہ کی مرکزی قیادت کو ٹارگٹ کیا۔ لہذا اس جانب سے بھی اسلحہ کا آنا ممکن نہیں ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ یمنیوں کے پاس بلاسٹک میزائل کہاں سے آئے۔؟ یمن کا ایک بڑا حصہ اس وقت عوامی فورس کے کنٹرول میں ہے۔ سرکاری اداروں پر بڑی حد تک ان کا کنٹرول ہے، ان سرکاری اداروں میں فوج، پولیس، انٹیلی جنس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بلاسٹک میزائل یمنی فوج کا اثاثہ ہیں، جو کہ علی عبداللہ صالح کے چالیس سالہ اقتدار کے دوران میں یمنی فوج نے حاصل کئے۔ یمن کا جو حدود اربعہ بیان کیا گیا اس کے تناظر میں ہتھیاروں کی بڑی مقدار بالخصوص بلاسٹک میزائل کا یمن تک پہنچانا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ ایرانی امداد کا دعویٰ کرنے والے بھی اب تک اپنے اس دعویٰ کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل یا واضح ثبوت نہیں لاسکے۔ فقط پراپیگنڈہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایرانی حکومت یمنی عوام اور حوثیوں کی حامی ہے۔ اخلاقی اور سفارتی سطح پر وہ یہ امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ شاید ایران کچھ طبی امداد بھی مہیا کرتا ہے، تاہم مدد کا ایک ہی راستہ موجود ہے اور وہ امدادی رقوم کی ترسیل ہے۔ حوثی مجاہدین کی حالت کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر بالفرض رقم کی صورت میں بھی مدد ہو رہی ہے تو وہ اس قدر نہیں کہ مجاہدین کے لئے باقاعدہ لباس اور جوتے ہی خریدے جا سکیں۔ یمن ایک قبائلی معاشرہ ہے، ہتھیار مرد کی زینت سمجھا جاتا ہے۔ خواہ کسی یمنی کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ ہو، اس کے پاس ہتھیار ضرور ہو گا۔ یمنیوں کی کمر سے بندھا خنجر ان کی قبائلی ثقافت کا غماز ہے۔ باب المندب کی دوسری جانب افریقہ کے ممالک ہیں، جہاں ہتھیاروں، منشیات اور دیگر اہم اشیاء کی بلیک مارکیٹ ہے۔ لہذا چھوٹے ہتھیاروں کی خریداری کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔
ایران یمنیوں کی مدد کیوں کرتا ہے؟
پراپیگنڈہ تو یہی ہے کہ چونکہ یمنی اور حوثی شیعہ ہیں، لہذا ایران ان کاحامی اور مددگار ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یمنی اور حوثی زیدی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیدی مسلک اگرچہ بنی فاطمہ سے متمسک رہا ہے، تاہم اس میں بھی کئی ایک فرقے موجود ہیں۔ سلیمانیہ، صالحیہ اور بتریہ فرقہ امامت کے منصب کو شیعہ اثناء عشریہ کے برخلاف شورائی سمجھتا ہے، اسی طرح افضل کو مفضول پر مقدم کرنا بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ زیدیہ کلامی اعتبار سے معتزلہ کے قریب تر ہیں۔ وہ امامت کو اہل سنت کے برخلاف فاطمی عالم اور مجاہد میں محصور سمجھتے ہیں۔ زیدیوں میں قاسمیہ فرقہ امام علی ؑ کی نص امامت کا قائل ہے۔ زیدیہ کا عقیدہ ہے کہ ایک ہی وقت میں دو مختلف علاقوں میں دو امام ہوسکتے ہیں، جبکہ شیعہ اثناء عشری کے مطابق ایک وقت میں ایک ہی ناطق امام ہوگا۔ شیعہ اور زیدیہ کے نزدیک باب اجتہاد اور چند دیگر امور میں اتفاق ہے۔ شفاعت امام، عصمت امام، تلوار سے قیام، دینی و دنیاوی رہبری جیسے امور میں بھی زیدیوں اور شیعہ کے مابین واضح اختلاف موجود ہے۔ زیدیہ اہل سنت کے امام ابو حنفیہ کی مانند فقہ میں قیاس کو بروئے کار لاتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ زیدی مکمل طور پر شیعہ ہیں، درست نہیں، نہ ہی یہ کہنا درست ہے کہ و
ہ مکمل طور پر اہل سنت ہیں بلکہ ان کی اپنی مستقل فقہ ہے، اسی سبب انہیں زیدی مسلک کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔
پس واضح ہوا کہ مسلک کی بنیاد پر مدد کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے، زیدیوں اور شیعہ کے مابین موجود چند مشترکات کے باوجود علماء کے نزدیک یہ مسلک اہل سنت سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ ویسے بھی ایران کا ان کی مدد یا حمایت کرنا مسلک کی بنیاد پر ہوتا تو ایران کبھی بھی حماس، جہاد اسلامی فلسطین اور سوڈان کی اسلامی تحریک کی حمایت نہ کرتا۔ مظلوم کی مدد اور حمایت دین اسلام کی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہے۔ ہر وہ مسلمان ریاست یا مسلمان فرد جو مظلوم کی مدد کو اپنا شرعی فرض تصور کرتا ہے، پر واجب ہے کہ مظلوم خواہ کسی بھی مسلک سے ہی کیوں نہ ہو، اس کی ہرممکن مدد کی جائے۔ ایسا بھی نہیں کہ کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ مشرق وسطی اور ایران میں موجود مقتدر قوتوں کا اختلاف نظریاتی اور اصولی ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کے حل، اس کی تعمیر و ترقی کے لئے مسلمان ممالک سے آمرانہ حکومتوں کا خاتمہ اور وہاں عوامی حکومتوں کا قیام ضروری ہے۔
تاہم اس حل پر ایمان کے باوجود ایران نے حتی المقدور کوشش کی کہ وہ کسی بھی مسلمان ریاست کے خلاف عسکری یا سفارتی حتی عوامی خلفشار کی سطح کے جارحانہ اقدامات سے گریز کرے۔ ایران نے کبھی بھی کسی بھی اسلامی ریاست کے امور میں اس وقت تک عملی مداخلت نہیں کی، جب تک وہ ریاست یا اس کے عوام کا ایک حصہ امت کے وسیع تر مفاد کے خلاف کھل کر سامنے نہ آجائے یا کسی اور مسلمان ریاست پر چڑھ دوڑے، جبکہ مشرق وسطیٰ میں مقتدر آمریتیں ایران کو اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہ اپنے عوام میں مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر، عوام کو ایرانی تسلط سے خوفزدہ کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ لبنان، عراق، نائجیریا، یمن، شام اور فلسطین وہ ممالک ہیں، جہاں مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے تمام حربوں کے باوجود انقلاب اسلامی کے نظریہ کو تقویت ملی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج ان ممالک کے عوام اپنے اصولی موقف اور بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے پر ایرانی پراکسی ہونے کا طعنہ برداشت کر رہے ہیں۔