صدی کی ڈیل ابتدائی مرحلے میں ہی تعطل کا شکار
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)تحریر: رحمان نعیمی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر اور داماد جیرڈ کشنر نے چند ہفتے پہلے فلسطینی روزنامے القدس کے صحافی کی جانب سے صدی کی ڈیل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: "ہم اس معاہدے کو تقریباً مکمل کر چکے ہیں۔” انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب وہ مشرق وسطی مذاکرات میں امریکی صدر کے خصوصی ایلچی جیسن گرینبلات اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمن کے ہمراہ مشرق وسطی کے ممالک کا دورہ شروع کرنے والے تھے۔ ان کی اس بات سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ صدی کی ڈیل نامی معاہدے کے تمام مقدماتی کام انجام دے چکے ہیں اور اب صرف اسے منظر عام پر لانے کا مرحلہ باقی رہ گیا ہے۔ اسی وجہ سے رویٹرز نیوز ایجنسی نے اس وفد کی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں اپنے ذرائع کے بقول یہ خبر لگائی کہ بہت جلد صدی کی ڈیل نامی معاہدے کا اعلان ہو جائے گا۔ لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ معاہدہ اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی تعطل کا شکار ہو چکا ہے اور حتی خود مقبوضہ فلسطین میں بھی اس سے وابستہ امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
اس بات کی ایک علامت مقبوضہ فلسطین میں حال ہی میں انجام پانے والے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ سروے اسرائیل ڈیموکریسی نامی تھنک ٹینک کی جانب سے انجام پایا ہے۔ اس سروے کے نتائج پیر کے دن اسرائیلی اخبار ہارٹز میں شائع ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس سروے رپورٹ کے مطابق 77 فیصد اسرائیلی شہری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ پالیسیز کو مکمل طور پر اسرائیلی مفادات کے حق میں قرار دیتے ہیں لیکن 74 فیصد اسرائیلی شہریوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے پیش کردہ صدی کی ڈیل نامی منصوبہ ناکامی کا شکار ہو گا۔ اسی طرح پانچ فیصد سے بھی کم اسرائیلی شہری اس حق میں ہیں کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس سروے رپورٹ کی رو سے ہر چار اسرائیلی شہریوں میں سے تین صدی کی ڈیل سے بدگمانی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ یہ تاثر اسرائیلی عرب شہریوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی میڈیا نیوز ون سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار یونی بن مناحم نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین اتھارٹی اور بعض عرب ممالک کے حکام کو اپنی پیش کردہ صدی کی ڈیل قبول کرنے پر راضی کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے بعض یورپی اتحادیوں سے مشورہ کر کے اس ڈیل میں فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور قدس شریف سے متعلق بعض تبدیلیاں لائیں۔
وائٹ ہاوس نے صدی کی ڈیل کے بارے میں پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب انہیں پہلے کی طرح اس ڈیل کو کامیاب بنانے میں کوئی جلدی نہیں۔ یونی بن مناحم کی نظر میں یہ خاموشی فلسطینیوں کی جانب سے ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے مقابلے میں شدید مزاحمت اور ردعمل کا نتیجہ ہے۔ اسی مزاحمت اور ردعمل کے نتیجے میں فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے جیرڈ کشنر سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس مزاحمت اور ردعمل کا عروج حق واپسی تحریک کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ تحریک حماس، اسلامک جہاد اور دیگر فلسطینی تنظیموں کی جانب سے شروع کی گئی تھی اور عوام نے اس میں بھرپور شرکت کی۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں رام اللہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں بھی بھرپور عوامی احتجاج شروع ہو گیا جس میں فلسطین اتھارٹی اور دیگر تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ حماس اور اسلامک جہاد نے صدی کی ڈیل کے مقابلے میں تخلیقی اقدام انجام دے کر اسے ناکامی کا شکار کر دیا لہذا اسرائیل نے ان دو جہادی تنظیموں کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
اسرائیل نے حماس کے خلاف یہ پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ حماس نے خفیہ طور پر اسرائیل سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے حماس کو جنگ کی دھمکی دے رکھی ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ جنگ ماضی کی جنگوں سے کہیں زیادہ وسیع سطح پر ہو گی۔ حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے حماس اور اسرائیل کے درمیان خفیہ مذاکرات پر مبنی افواہوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر منگل کے دن حماس کو جنگ کی دھمکی لگاتے ہوئے لکھا کہ اس اقدام میں اسے عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ایک طرف حماس کے خلاف پراپیگنڈے اور دھمکیوں کی سازش انجام دی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے حکام مالی امداد کی لالچ کے ذریعے جہادی تنظیموں پر صدی کی ڈیل قبول کرنے کیلئے دباو ڈال رہے ہیں۔ لیکن حماس اور اسلامک جہاد نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔ حماس کے رہنما غازی احمد نے اعلان کیا ہے ان کی تنظیم قومی ایشوز پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گی۔