صیہونی نسل پرستی اور مقبوضہ فلسطین (آخری حصہ)
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حالیہ دنوں انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر قابض غاصب صیہونی دشمن اسرائیل نے ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس کا خلاصہ نسل پرستی پر مبنی ہے یعنی ایک طرف غاصب صیہونیوں نے مقبوضہ فلسطین پر ناجائز تسلط قائم کیا ہے اور اب اس قانون کی رو سے چاہتے ہیں کہ خطے اور سرزمین کی مکمل شناخت کو تہس نہس کر ڈالیں اور اس کام کے لئے صیہونوں نے نسل پرستی کے ہتھیار کو ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اپنا ہتھیار بنایا ہے۔چند ماہ قبل غاصب صیہونیوں نے امریکی صدر کی مدد سے کوشش کی تھی کہ فلسطین کے ابدی دارلحکومت ’’بیت المقدس /یروشلم‘‘ کو جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے کر فلسطین کی شناخت اور جغرافیہ کو تبدیل کر دیں لیکن دنیا نے اس ظالمانہ اور جارحانہ فیصلہ کو مسترد کر دیا۔واضح رہے کہ اسی طرح کا ایک ظالمانہ فیصلہ ایک سو سال قبل برطانوی استعمار کی حکومت اور اس کے ایک اعلیٰ عہدیدار جیمز بالفور کی جانب سے پیش کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں فلسطین کو تقسیم کر کے یہاں پر صیہونیوں کا غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا تھا اور برطانوی استعمار کی سرپرستی میں ایک جعلی ریاست بعنوان ’’اسرائیل‘‘ قائم کی گئی تھی۔مقالہ کے پہلے حصہ میں ہم نے نسل پرستی کی مختصر تاریخ اور اس کا صیہونیوں کے ساتھ ربط بیان کیا تھا اور دنیا کے دیگر ممالک کی چند ایک مثالیں پیش کی تھیں تا کہ قارئین کے لئے نسل پرستی کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔مقالہ کے اس دوسرے حصہ میں ہم کوشش کریں گے کہ حالیہ دنوں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی سرزمین پر اپنے غاصبانہ تسلط کو مزید توسیع دینے کے لئے جو یہودی نسل پرستی یا بلکہ صیہونی نسل پرستی کا قانون کہنا زیادہ موزوں ہے، منظور کیا گیا ہے۔اس قانون کے متعلق کچھ تفصیل پیش کریں گے ۔اسرائیل ایک ایسی جعلی اور غاصب ریاست کا نام ہے کہ جو ستر سال سے فلسطینیوں کے قتل عام اور لاشوں پر قائم ہے اور مسلسل ظلم وبربریت سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے دستبردار کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اب مسلسل ناکامیوں کے بعد اسرائیل اپنے غیر آئینی اور ناجائز وجود کو حقیقت اور جائز وجود قرار دینے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف عمل ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہو اکہ القدس شہر کی شناخت کو بدل کر کوشش کی گئی لیکن فلسطینیوں سمیت دنیا بھر کے عوام اور حکومتوں نے اسے مسترد کر دیا ۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے وجود کو جائز قرار دینے یا حقیقت منوانے کے لئے ہمیشہ ہی سے نسل پرستانہ قوانین کا سہارا لیا ہے جبکہ حالیہ دنوں جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے منظور کیا جانے والا نام نہاد یہودی قومیت کا قانون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جسے نہ صرف فلسطین کے عوام بلکہ خود یہودی اقوام کہ جو صیہونی نہیں ہیں اور دنیا کے دیگر اقوام و حکومتوں کی جانب سے شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ سمیت فلسطین اور عرب دنیا میں دسیوں ہزار یہودیوں کی تعداد موجود ہے کہ جو اسرائیل کی ریاست کو فلسطین پر غاصبانہ تسلط اور ناجائز و جعلی ریاست قرار دیتے ہیں جبکہ فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی کے حق میں جد وجہد بھی کر رہے ہیں۔ان یہودیوں کی سب سے بڑی تنظیم اور اس کا مرکز امریکہ میں قائم ہے۔غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے حالیہ دنوں منطور کئے جانے والے قانون میں اسرائیل کی جعلی ریاست کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دیا گیا ہے اور فلسطین پر ناجائز اور غاصبانہ تسلط کو درست اور حق قرار دیا گیا ہے۔اسرائیلی ریاست کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اسرائیل کو یہودیوں کا قومی ملک قرار دینے کے نسل پرستانہ قانون کی منظوری دی ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ صہیونی ریاست کا یہ نام نہاد قانون دراصل ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے وجود کو ختم کرنے کا سنگ اول ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد پورے فلسطین میں ’ٹرانسفر‘ نامی اس خطرناک فارمولے پرعمل درآمد کی راہ ہموار ہوگئی ہے جس کا مقصد فلسطینی قوم کو ارض فلسطین سے نکال باہر کرنا اور پوری دنیا سے یہودیوں کو چن چن کر فلسطین میں آبادکرنا ہے۔گذشتہ دنوں جعلی ریاست اسرائیل کی پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں ابتدائی رائے شماری کے تحت منظور ہونے والے بل کی حمایت میں 62 ارکان نے ووٹ ڈالا۔ اسرائیل کو یہودیوں کا قومی ملک قرار دینے کا سب سے زور دار نعرہ داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے ’شاباک‘ کے سابق چیف آوی دیختر نے گذشتہ برس لگایا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اس نام نہاد قانون پر بحث شروع ہوگئی۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دینے اور پوری دنیا کی ملت یہود کو فلسطین میں آباد کرنے کے قانون کے اہم نکات کچھ اس طرح ہیں۔اس قانون کی رو سے بنیادی اصول میں ارض اسرائیل ملت یہود کا تاریخی وطن ہے اور اس پر انہیں اپنی مملکت قائم کرنے کا ابدی اور ازلی حق ہے۔(نسل پرستی کی بنیاد)۔اسی طرح اسرائیلی ریاست یہودیوں کا قومی وطن ہے اور اس میں یہودیوں کو اپنے فطری،ثقافتی، مذہبی اور تاریخی حقوق کو استعمال کرنے اور حق خود ارادیت کے مطابق زندہ رہنے کا حق ہے۔ اسرائیلی مملکت یہودیوں کا اصل حق خود ارادیت ہے اور اس کا حصول تمام یہودیوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔اس غاصب اور جعلی ریاست کا نام ’مملکت اسرائیل‘ رکھا گیا ہے۔جعلی ریاست کے پرچم کے لئے سفید رنگ اور نیلے رنگ کی دو لائنوں کے ساتھ وسط میں ستارہ داؤدی منتخ
ب کیا گیا ہے۔ مینورہ (Menorah)160 اسرائیل کا سرکاری نشان اور یہودیوں کی مقدس مذہبی علامت ہے۔ یہ160 سات شاخوں والا ایک شمعدان ہے۔ یہ سات شاخوں والی جھاڑی مینورہ سے ماخوذ ہے۔جعلی ریاست کا قومی ترانہ ’ھتکفا‘ کہلاتا ہے۔جعلی ریاست کے دارلحکومت کے لئے متحدہ مقبوضہ بیت المقدس قرار دیا گیا ہے۔یہاں کی قومی و سرکاری زبان عبرانی قرار پائی ہے۔عربی زبان کو اسرائیل میں خصوصی اسٹیٹس حاصل ہوگا جب کی سرکاری دفاتر میں صرف عبرانی زبان استعمال کی جائے گی۔اس نسل پرستانہ قانون کے تحت دنیا بھر میں موجود صیہونی ہم فکر نظریہ کے یہودیوں کو اسرائیل میں آباد ہونے کی کھلم کھلا دعوت دی گئی ہے، صیہونی غاصب اور جعلی ریاست کے اس نسل پرستانہ قانون میں دنیا میں موجود دیگر صیہونی باشندوں کی سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہودی خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہو اس کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے مدد کی جائے گی۔اسی طرح دنیا بھر میں موجود صیہونی نظریہ کے ہم فکر یہودیوں کے ساتھ تعلقات استوار کئے جائیں گے۔ اسرائیلی ریاست یہودیوں کے ثقافتی ورثے،تاریخ، مذہب اور تہذیب واقدار کی محافظ ہوگی۔صیہونیوں کے اس نسل پرستانہ قانون میں سرزمین فلسطین پر دنیا بھر سے لا کر صیہونیوں کو آباد کرنے کے عمل کی قدر دانی کی گئی ہے اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔اسی طرح کیلنڈر عبرانی، اور فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ تسلط کے دن کو صیہونیوں کا یوم آزادی قرار دیا گیا ہے، واضح رہے کہ اس دن آٹھ لاکھ سے زائد مظلوم فلسطینیوں کو صیہونی دہشت گرد تنظیموں نے فلسطین سے جبری جلا وطنی پر مجبور کیا تھا جبکہ سیکڑوں بے گناہوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا تھا۔صیہونی کالے قانون میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرتے وقت ہلاک ہونے والے یہودی فوجیوں کے دن کو المیہ اور بہادری کے ایام قرار دیا گیا۔اس نسل پرستانہ قانون کے تحت مقبوضہ فلسطین میں ہفتہ کو تعطیل قرار دیا گیا ہے جبکہ اس قانون کو تبدیل کرنے کے لیے اسرائیلی کنیسٹ کی مطلق اکثریت کی حمایت درکاری ہوگی۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔