مضامین

خدا کیلئے کسی طرح ایک سیٹ مولانا کو دے دیں

ناصر خان کا فکاہیہ کالم

اس کے منہ میں خاک جس نے کہا تھا کہ اس مرتبہ مچھلی پانی سے باہر رہے گی۔ کالی زبان والے کی یہ بات پوری ہوگئی۔ اب مچھلی پانی کے بغیر تڑپ رہی ہے اور کسی کو اس پر ترس نہیں آرہا۔ جس سے سب سے زیادہ امیدیں تھیں، وہ کنی کترا کے چلا گیا، جاتے جاتے کہہ گیا کہ میں مشورہ کرکے چند دن بعد بتاؤں گا۔ نیچے والوں سے اس نے مشورہ کیا کرنا ہے جبکہ بھائی جان سے بالمشافہ مشورہ جمعرات کی جمعرات ممکن ہے۔ ادھر مچھلی کی یہ حالت ہے کہ:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
تڑپتے تڑپتے وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں:
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے
دو تین دن بعد کا وعدہ کرکے وہ چل دیئے اور پیچے مڑ کر بھی نہ دیکھا، حالانکہ مولانا نے صحافیوں کے سامنے انہیں کو اے پی سی کا میزبان بنا دیا تھا۔ اس عالم میں بھی مولانا کو کس قدر جینے کا ہنر آتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں:
حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ

خرچہ بیچارے ہارے ہوئے میاں محمد اسلم کا، حکم قائد القائدین کا اور میزبان کی ٹوپی ’’بے مو‘‘ کے سر پر۔ بے مو ہم نے ادب کی وجہ سے لکھا ہے، کیونکہ گنجا کہنے سے کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔ ہارے ہوئے کی بارات میں ہمسایوں کے دلہے کو بٹھا کر تھوڑی دیر کے لئے کیمروں کے سامنے اپنی واہ واہ کا سامان تو کر لیا۔ مولانا کے دل کو کیسے قرار آئے گا، وہ یار بے وفا تو لوٹ کر نہیں آئے گا، رہ گئے ہارے ہوئے قائدین کے منتخب اراکین کے حلف نہ اٹھانے کا مسئلہ تو نماز تمام ہونے تک انتظار کرنا ہوگا۔ مولانا جب سلام پھیر کر پیچھے دیکھیں گے کہ کتنے نمازی باقی رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں، ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے واقعی جا کر حلف اٹھانا تھا، تو پھر حقیقت کھلے گی یا آنکھ کھل جائے گی۔

بلاول نے عجیب کیا، سارے انتخابات کو مسترد بھی کر دیا اور حلف اٹھانے کا اعلان بھی۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بننے سے پہلے احتجاج بھی کر دیا اور سندھ کا صوبائی وزیراعلٰی بھی نامزد کر دیا۔ اس موقع پر مرحوم میاں محمد طفیل سابق امیر جماعت اسلامی بہت یاد آ رہے ہیں، جنہوں نے جنرل ضیاءالحق کے ریفرنڈم کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ ہم احتجاجاً اس ریفرنڈم میں حصہ لیں گے، یعنی احتجاجاً ضیاءالحق کو ووٹ ڈالیں گے۔ عجیب بات ہے کہ بزعم خویش وارث تو بھٹو کا ہے اور سنت میاں محمد طفیل کی پوری کر رہا ہے۔ واقعاً زرداری کا ہونہار بیٹا ہے، اب انشاءاللہ وہ ڈٹ کر اپوزیشن کرے گا۔ جب اسمبلی سے بائیکاٹ پر پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور متحدہ قومی موومنٹ حلف اٹھا کر تحفظات کا اظہار کریں گی تو پیچھے کیا بچے گا۔

لیکن مولانا کی طرف ایک نظر کرم بہرحال ضروری ہے۔ خدا کے لئے کسی طرح ایک سیٹ مولانا کو دے دیں، کیونکہ جتنے مرضی افراد حلف اٹھا لیں، فساد فی الخلق کا اندیشہ موجود رہے گا اور اس اندیشے میں جب مذہب بھی شامل ہو جائے گا تو اس کی کڑواہٹ کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا فساد فی الخلق سے بچنے کے لئے یہی نسخہ کیمیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے مچھلی کو دریا میں واپس پھینک دیا جائے۔ ہم یہاں کشمیر کمیٹی کا کوئی ذکر نہیں کرتے، اس کے بارے میں آپ کی مرضی ہے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button