مضامین

نئی حکومت خارجہ پالیسی کے تناظر میں

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: عرفان علی

عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ اور قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کو ملک کی نئی حکمران جماعت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو پروٹوکول اس جماعت کے سربراہ عمران خان کو مل رہا ہے اور جس طرح دیگر ممالک کے سفیر ملاقاتیں کر رہے ہیں یا تہنیتی پیغامات بھیج رہے ہیں، اس سے قوی تاثر یہی ابھر رہا ہے کہ وزارت عظمٰی کی دوڑ میں بھی شاید وہ سرفہرست ہی ہیں جبکہ انتخابات سے قبل تجزیہ کار یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ بادشاہ کی بجائے بادشاہ گر بھی بن سکتے ہیں۔ یعنی خود براہ راست حکمران بننے کی بجائے اپنی جماعت سے کسی اور کو حکمران بنا دیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر جو پذیرائی ہو رہی ہے، اسکے بعد وہی اگلے حکمران کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں جبکہ اطلاعات یہ ہیں کہ انکے خلاف سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے کوئی مقدمہ دائر کر رکھا ہے، جس کی سماعتوں کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے، اس لئے ایک حلقہ اس رخ کو مدنظر رکھ کر شکوک و شبہات میں مبتلا ہے کہ کہیں جہانگیر ترین کی طرح خان صاحب کو بھی گھر کا راستہ نہ دکھا دیا جائے۔ عمران خان کا پروگرام 11 اگست کو حلف اٹھانے کا ہے یعنی بانی پاکستان محمد علی جناح کی 11 اگست والی تاریخی تقریر کی وجہ سے اس کی اہمیت ہے۔ ان نکات سے قطع نظر جو اب تک کی صورتحال ہے، اس پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو نئی اکثریتی جماعت اور اسکی قیادت کے سامنے بھی دیگر آزمائشوں کے ساتھ ساتھ خارجہ امور بھی اہم ہے اور اسی پر ایک ابتدائی نکتہ نظر پیش خدمت ہے۔

ایک کالعدم جماعت نے شور مچا رکھا ہے کہ ایرانی لابی نئی ممکنہ حکمران جماعت پر اثر انداز ہے حالانکہ یہ الزام بے بنیاد ہے اور حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ ایک شیعہ مذہبی سیاسی جماعت کے انتخابی اتحاد کی وجہ سے تحریک انصاف انکا یا ایران کا کچھ خیال رکھے گی تو چوہدری سرور اور جہانگیر ترین کی کالعدم گروہ کے اکلوتے ایم پی اے کے ووٹ کے لئے اس سے ملاقاتیں اور معاملات طے کرنا، خیالی جنت کے مکینوں کو زمین پر موجود حقیقت کی دنیا میں لانے کے لئے کافی ہے۔ اگر بات کی جائے سعودی عرب کی تو عمران خان اپنی تیسری شادی کے بعد اپنی نئی بیگم کے ساتھ خصوصی طیارے میں سفر کرتے ہوئے عمرہ کی سعادت سے مشرف ہونے گئے تھے، تب سعودی عرب کی طرف سے انہیں سرکاری پروٹوکول دیا گیا تھا۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے ایران یا عراق میں مزارات مقدسہ کی زیارات کا سفر نہیں کیا بلکہ صرف عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ایک سفر کیا اور اس میں بھی وہ عام پاکستانی کی طرح نہیں تھے بلکہ سعودی سرکاری پروٹوکول انہیں حاصل رہا اور جب منتخب ہوگئے تو سب سے پہلے (اگر میں بھول نہیں رہا تو) سعودی سفیر نے ہی ان سے ملاقات بھی کی ہے، جبکہ ایرانی سفیر کی جانب سے ملاقات کی بجائے ایک تہنیتی خط بھیجا گیا ہے۔ ماضی کے بیانات یا انتخابات جیتنے کے بعد تقریر کی مثالیں جن کے ذہن میں آرہی ہیں، وہ فراموش نہ کریں کہ طالبان کا پاکستان میں دفتر کھولنے کا مطالبہ بھی عمران خان کا تھا اور اے آر وائی چینل کے وسیم بادامی کا سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک سے انٹرویو بھی ریکارڈ کی درستگی کے لئے موجود ہے کہ جس میں وزارت اعلیٰ کے ابتدائی ایام میں انہوں نے طالبان کے حوالے سے کیا کہا تھا۔ عمران خان مذاکرات کے حامی رہے جبکہ انکی اتحادی جماعت دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتی رہی اور مخالفین بیانات کی تبدیلی کی وجہ سے پی ٹی آئی قائد کو یو ٹرن بھی کہتے ہیں۔

عمران خان سے جس دوسرے ملک کے سفیر نے ملاقات کی ہے، وہ پڑوسی ملک چین ہے اور عمران خان اور انکی جماعت کے بعض سرکردہ افراد جو کامیاب کاروباری شخصیات ہیں، وہ بہت سے حوالوں سے چین کو ماڈل سمجھتے ہیں، لیکن چین و پاکستان کے زمینی حقائق مختلف ہیں۔ چین اپنے نقصان میں چلنے والے ہزاروں اداروں کو پال رہا ہے، کیونکہ اسکی اقتصادی حیثیت بہت ہی مستحکم ہے جبکہ پاکستان کے ایسے ادارے بمشکل ایک سو ہوں گے اور پاکستان ان کو بھی چلانے کے لئے اضافی وسائل نہیں رکھتا۔ پاکستان کے اقتصادی مسائل کے حل میں چین جو کچھ کرسکتا ہے، وہ سی پیک اقتصادی راہداری ہے۔ چین آئی ایم ایف کا متبادل بنتا نظر نہیں آرہا اور آئی ایم ایف کے نئے قرضے کے بغیر نئی حکومت ملک چلاتی نظر نہیں آرہی۔ چین کو اہمیت یا ترجیح دینا پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں، خواہ حکومت نواز لیگی ہو، پیپلی ہو، قاف لیگی ہو یا پھر اب انصافین۔ ملکی لحاظ سے مدد کرنے والے ایکٹرز کے علاوہ عمران خان تعمیراتی شعبے میں جو مدد لے سکتے ہیں، وہ پاکستانی نژاد انیل مسرت ہیں، جو برطانیہ کی مشہور و معروف اور بین الاقوامی شخصیت ہیں۔ مقامی طور پر تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان کی تنظیم آباد کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔ لیکن سرمایہ کاری کے لئے بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عمران خان کو فون کرکے مبارکباد اور دورہ کابل کی دعوت بھی دی ہے۔ دونوں ملک پرانی باتوں کو بھلا کر تعلقات کی نئی بنیاد رکھیں، اس پر دونوں میں اتفاق ہوا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی نے بھی انہیں فون کیا ہے اور مبارکباد دی ہے۔ خطے میں امن و ترقی کے لئے اپنے وژن "سب کا ساتھ سب کا وکاس” کے عزم کو دہرایا ہے کہ اس جنوبی
ایشیاء (سارک ممالک کو) مل جل کر امن و ترقی کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دیا جانا چاہئے اور انہوں نے دسمبر 2015ء میں عمران خان سے ملاقات میں ہونے والے نکات کو بھی دہرایا۔ سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے جمہوری قوتوں کے حق میں بیان دیا ہے اور اس مرتبہ اپنا پرانا راگ نہیں الاپا کہ دہشت گردی سے پاک فضاء ہوگی تو بات چیت ہوگی۔ یہ ایک حیرت انگیز سہی لیکن خوش آئند بات ہے۔ البتہ دونوں ملکوں میں بعض گروہوں کو یہ بات چیت ناگوار گذری ہوگی۔ عمران خان نے کھل کر کہا تھا کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھے، ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ اس طرح اس ایشو پر گیند کو بھارت کے احاطے میں ڈال دیا گیا ہے اور اب یہ مودی سرکار پر منحصر ہے کہ آگے معاملات کس طرح چلتے ہیں۔

ابھی یورپی ممالک کی طرف سے اعلیٰ سطحی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے، جبکہ امریکہ سے بھی محکمہ خارجہ کی سطح کی مبارکباد آئی ہے اور اسی طرح کی مبارکباد ایرانی وزارت خارجہ بھی جاری کرچکی تھی۔ ماضی میں عمران خان رجب طیب اردگان کی دعوت پر ترکی کا دورہ کرچکے ہیں اور دونوں کے مابین براہ راست ذاتی تعلق قائم ہے، اس ملک کو بھی اہمیت ملنے کا امکان ہے۔ اب امریکی صدر ٹرمپ، انکے وائٹ ہاؤس اور انکی کانگریس کی اہم شخصیات کے براہ راست رابطوں کا انتظار ہے۔ اسی طرح اہم یورپی ممالک بشمول برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ کا بھی۔ اقتصادی لحاظ سے مشکلات کے حل کی بیرونی مدد کی کنجی امریکہ اور یورپی یونین کے پاس ہے۔ امریکہ آئی ایم ایف سے غیر ترقیاتی قرضے اور عالمی بینک سے ترقیاتی قرضے دلوانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یورپی یونین اتنے بڑے پیمانے پر قرضے تو نہیں دے سکتی، لیکن تجارتی حجم میں اضافہ کرسکتی ہے اور پاکستان سے درآمدات میں اضافے کے لئے مزید رعایتیں دے سکتی ہے۔ سیاسی بیان بازیاں اور بڑھکیں حزب اختلاف کی حیثیت سے تو آپ افورڈ کرسکتے ہیں، لیکن حکمرانی کے دور میں عملی اقدامات کے ذریعے وعدوں کی تکمیل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، جتنا دیگر حکمرانوں کے دور میں ڈینگیں مارنا۔۔ قرضے نہ لینے کے وعدے کرنے والوں کو اب پتہ چلے گا کہ کہنے اور کرنے میں کتنا فرق ہے۔ خیبر پختونخوا میں پولیس کی اصلاحات نے کچھ امیج اچھا کیا ہے، لیکن نااہل اور قرضے معاف کروانے والے مشیروں کی موجودگی میں ایسی اصلاحات پنجاب میں کس طرح ہوں گی، یہ سوالیہ نشان ہے، البتہ یہ داخلی ایشو ہے۔

ٍ خارجہ محاذ پر پڑوس میں جو دوبڑے مسائل ہیں یعنی بھارت اور افغانستان کی حکومتوں اور اداروں کی وجہ سے، اس حوالے سے ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کا عمران خان سے ٹیلیفونک رابطہ ایک مثبت علامت ہے اور اس خوشگوار سفر کو درست سمت میں جاری رہنا چاہئے، البتہ کشمیر کا مسئلہ ان تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ امریکہ سے تعلقات کی نوعیت واضح نہیں ہے، اس لئے اسکا انتظار کیا جانا چاہئے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ہی جو سہولیات پاکستان کو فراہم کرسکتے ہیں، وہ ادھار پر خام تیل کی فراہمی ہے۔ سعودی عرب یمن جنگ کی وجہ سے اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ایران امریکی پابندیوں کی وجہ سے اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔ یہ دونوں ملک نئی حکومت کی بہت زیادہ مدد نہیں کرسکتے۔ ایران کم از کم اس لئے بہتر ہے کہ ایران، پاکستان کو کو اپنے کسی ایشو میں آزمائش میں نہیں ڈالتا، اپنی لڑائی خود لڑتا ہے، پاکستان کو نہیں گھسیٹتا جبکہ سعودی عرب پاکستان کو مسکین سمجھتا ہے، یعنی ایسا مسلمان جو محتاج و ضرورت مند ہے، تب بھی نیکی کے طور پر مدد نہیں کرتا، چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے، یمن کی لڑائی میں کودے، شام کے حوالے سے سعودی پالیسی کے تابع ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے حکومت بھلے سے نئی آجائے، مشکلات و مسائل وہی پرانے ہیں، جو ان کی پیش رو حکومتیں بھگتتی رہی ہیں۔

کم از کم جو کہا جاسکتا ہے کہ انصافین کی نئی حکومت میں خارجہ پالیسی پر نہ تو انکی اتحادی کسی جماعت کی کوئی اہمیت اور کردار ہوگا اور نہ ہی کالعدم دہشت گرد گروہ کے اکلوتے ووٹ کی کوئی اہمیت۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات ریاستی پالیسی کے تابع ہی رہیں گے اور جن کے پاس بالکل بھی مینڈیٹ نہیں ہے، یا اتنا ہے کہ ایک سیٹ بھی ریاست کی اپنے قوانین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خیرات میں ملی ہے، انکی سوشل میڈیا مہم ریاست پاکستان کی مجموعی خارجہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوسکتی اور جو مشہور کہاوت ہے کہ غیروں کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ایسوں پر صادق آتی ہے۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت نہیں تھی، تب بھی پاکستان نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے میں ایران کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پاکستان نے ایک دور میں فرانس اور ایران کے درمیان تعلقات کے لئے پل کا کردار ادا کیا۔

احمدی نژاد کی صدارت میں امریکہ اور ایران کے مابین رابطہ کا ذریعہ بھی بنا اور بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ جو یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ دیگر ’’دوستوں‘‘ کے بھرپور دباؤ کے باوجود ریاست پاکستان نے بہت سے ایشوز پر ایران کی مدد سے دریغ نہیں کیا اور ایران نے بھی پاکستان کی مدد کی ہے، جس کی چند مثالیں ہم ماضی میں لکھ چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ اور ایران میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں ایک ایرانی انٹرسٹ سیکشن قائم ہے۔ یہ ان دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار ہے اور موجودہ آرمی چیف کے دورہ ایران اور وہاں سے بھی ایرانی ہم منصب کا دور
ہ پاکستان، اس شعبے میں بھی ایک دوسرے سے اور زیادہ اچھے تعلقات کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی حکومت بھی پاکستان سے تعلقات کے لئے کسی کالعدم گروہ کی کبھی بھی محتاج نہیں رہی۔ جو بھی مسائل ہیں پرانے ہیں، صرف حکومت نئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ مسائل حل ہوتے ہیں یا نئی حکومت نئے مسائل پیدا کرتی ہے۔ حقیقت اپنے وقت پر خود ہی وقوع پذیر ہوکر اپنا ناقابل تردید وجود ظاہر کر دیتی ہے۔ اس لئے دیکھیں اور انتظار کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button