انصافین حکومت اور پاکستانیوں کے خدشات
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: عرفان علی
پاکستان تحریک انصاف اس وقت حکومت سازی کے مراحل طے کرنے میں مصروف ہے، لیکن اس کی تبلیغاتی مہم اور بڑے بڑے دعووں اور وعدوں کی وجہ سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو توقع ہے کہ اب تبدیلی یقینی ہے تو حقائق سے باخبر کہنہ مشق سنجیدہ سیاسی و اقتصادی ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ پچیس جولائی عام انتخابات کے بعد صرف دو صوبوں سندھ اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کئے لئے علی الترتیب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو مطلوبہ اراکین اسمبلی کی عددی قوت دستیاب ہے جبکہ مرکزی حکومت اور صوبہ پنجاب و بلوچستان میں حکومت سازی کے لئے پاکستان تحریک انصاف یا اسکے اتحادی قدرے بہتر حیثیت کے حامل ہیں۔ پنجاب میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ عمران خان کی پی ٹی آئی دوسرے نمبر کی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے اور آزاد اراکین کی شمولیت اور قاف لیگ کے اراکین اسمبلی کی حمایت کے بعد اس کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ پنجاب حکومت انہی کی ہوگی۔
اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے ساتھ وہاں کی مخلوط حکومت میں پی ٹی آئی جونیئر پارٹنر ہوگی، یعنی وزیراعلیٰ اتحادی جماعت بی اے پی کا ہوگا۔ بلوچستان کے لئے تاحال پندرہ رکنی صوبائی کابینہ پر اتفاق ہوا ہے، جس میں پانچ وزراء بی اے پی کے ہوں گے، دو پی ٹی آئی کے اور ایک ایک ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، عوامی پارٹی اور ایک اور اتحادی پارٹی بی این پی یا اس کے ساتھ ساتھ جمہوری وطن پارٹی کے بھی ہوسکتے ہیں، جبکہ دو وزراء، ان آزاد میں سے ہوسکتے ہیں، جنہوں نے بعد ازاں بی اے پی یا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہو۔ بی اے پی کو پی ٹی آئی کی قیادت میں بننے والی مرکزی حکومت میں ایک وزارت دیئے جانے کا امکان ہے۔ قاف لیگ کے لئے پی ٹی آئی قیادت نے تاحال یہ طے کیا ہے کہ اسے پنجاب کے اقتدار میں حصہ دیا جائے، یعنی اسپیکر اسمبلی کا عہدہ اور وزارتیں جبکہ علیم خان کی نااہلی، یا بہتر متبادل دستیاب نہ ہونے پر وزارت اعلیٰ کے لئے بھی قاف لیگ کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک باہر ہوچکے ہیں، جبکہ دو دیگر امیدواروں کے حامی لابنگ میں مصروف ہیں۔ عمران خان اور انکی جماعت کے لئے سب سے زیادہ مشکل داخلہ کی وزارت ہے، جس کے لئے بیک وقت تین افراد کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ عمران کے دوست اور اتحادی شیخ رشید احمد، پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی تینوں کی خواہش ہے کہ انہیں وزیر داخلہ بنایا جائے۔ شاہ محمود قریشی چاہتے تھے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بن جائیں، لیکن شومئی قسمت کہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخابی معرکہ وہ ہار گئے اور اس طرح وزارت اعلیٰ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد انکی جماعت نے وزیر خارجہ کے لئے انکا نام تجویز کیا تو انہوں نے منع کر دیا۔ وزارت داخلہ سے انہیں دور رکھنے کے لئے اب انہیں اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے کی پیشکش کی گئی ہے۔
لگ یہ رہا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑا ہے اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے حلقے سے شاہ محمود کی شکست انہی کی جماعت میں موجود انکے مخالف گروپ کا کارنامہ تھا اور اب پسندیدہ وزارت سے بھی انہیں محروم کرنے کے لئے یہی گروپ پس پردہ لابنگ میں مصروف ہے۔ اس تنازعے کو یہیں محدود نہ سمجھا جائے کیونکہ پی ٹی آئی کی ممکنہ حکومت کی پوری مدت حکمران جماعت کے مختلف گروہوں کے جھگڑوں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں ہی گذریں گے۔ ایک ایسی جماعت جس میں انتہائی دولت مند اور با اثر اشخصیات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہیں، اسکی حکومت ان جھگڑالو اور سازشی شخصیات کی موجودگی میں کس طرح ان تنازعات کے ہوتے ہوئے استحکام حاصل کرسکے گی؟ اور جب وہ خود ہی مستحکم نہیں ہوگی تو ملک کو کیسے مستحکم کرے گی۔
ایک کالعدم دہشت گرد گروہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو 70 انتخابی حلقوں میں اسکی حمایت حاصل رہی۔ ان میں عمران خان، علیم خان، فیصل واوڈا سمیت متعدد اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔ نون لیگ کے صرف ایک امیدوار شاہد خاقان عباسی کی انہوں نے حمایت کی، جبکہ شہباز شریف تک کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان کی جماعت یا وہ خود کتنی ہی لاتعلقی ظاہر کریں، لیکن یہ آن ریکارڈ حقائق ہیں کہ پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں میں سے بھی بعض نے اس کالعدم جماعت کے دفتر جاکر ان سے حمایت کی دروخواست کی تھی اور ان میں سے ایک عبدالشکور شاد بھی ہیں، جنہوں نے لیاری کے حلقے میں بلاول بھٹو زرداری کو شکست دی ہے۔ عبدالشکور شاد کے خلاف پی ٹی آئی کی قیادت نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی ہی خاتون امیدوار غلام بی بی بھروانہ نے کالعدم گروہ کے سرغنہ کو جھنگ میں عبرتناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ دیگر جماعتوں کی بھی صورتحال اسی طرح کی ہوسکتی ہے، لیکن پی پی پی نے کراچی میں اپنے ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہے اور کالعدم جماعت کی حمایت کرنے پر سابق صوبائی وزیز مظفر شجرہ کو پی پی پی کی فیڈرل کاؤنسل کی رکنیت اور بنیادی رکنیت سے خارج کر دیا۔
یہ نکات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ممکنہ حکومت کیا اس کالعدم گروہ کے خلاف سخت اقدامات کر پائے گی کہ جس کی حمایت ک
ے لئے انکے رہنما پیش پیش رہے۔ اسی کالعدم گروہ کی ایک بدنام زمانہ شخصیت رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے جبکہ انکے مقابلے میں بیگم راشدہ یعقوب کو بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نااہل قرار دیا گیا، تاکہ یہ بدنام زمانہ شخصیت جیت سکے۔ قوی امکان یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار برائے وزیراعلیٰ پنجاب کے حق میں یہ بھی ایک ووٹ دے گا، کیونکہ جہانگیر ترین و چوہدری سرور کی ملاقاتوں و مذاکرات میں یہ طے کیا جاچکا ہے۔ فیس سیونگ کے لئے اسکو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آزاد حیثیت برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت سے مراعات لیتا رہے اور اگر فیس سیونگ کا تکلف نہ کیا جائے تو یہ شخصیت پی ٹی آئی کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔ نون لیگ کے موجودہ صدر شہباز شریف کے خلاف اس کالعدم گروہ نے پی ٹی آئی کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔ اگر یہ نون لیگ سے مل جاتا تو اس پر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا طوفان مچا دیتا، لیکن ایک ایسی جماعت جس کی حمایت ایک شیعہ جماعت نے انتخابی اتحاد کرکے کی اور ایک دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین نے کی ہو، اس میں کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے لئے نرم گوشہ پایا جانا، نظریہ ضرورت کے تحت اسکو ایڈجسٹ کر لینا، یہ ان جماعتوں اور قائدین کی ساکھ خراب کرنے کی ایک ٹھوس وجہ بن سکتا ہے۔
انصافین حکومت کے ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ ملک کو چلانے کے لئے بارہ بلین ڈالر درکار ہیں۔ البتہ انہوں نے امریکہ پر طنز کیا ہے کہ وہ پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی کی فکر نہ کرے بلکہ جو امریکہ پر چین کا قرضہ ہے، اسکو ادا کرنے کی فکر کرے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں آئی ایم ایف کو خبردار کیا تھا کہ امریکہ اسے دیکھ رہا ہے۔ انکا موقف یہ تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لئے کوئی ایسا بیل آؤٹ پیکیج نہ دے کہ جس سے پاکستان حکومت چین سے حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگی کرے یعنی آئی ایم ایف کا قرضہ چینی قرض دہندگان کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہ دیا جائے۔ آئی ایم ایف کے نئے قرضے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص پر مقروض حکومت نت نئے عنوانات سے نئے ٹیکس لگائے گی۔
آئی ایم ایف کا قرضہ جب دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی وہ سارے شعبے بھی بتا دیئے جاتے ہیں، جہاں سے حکومت پاکستان اضافی آمدنی حاصل کرکے سیدھا آئی ایم ایف کو ربا سمیت قسطوں میں قرض واپس کرسکے۔ یہ سیلز ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، سرچارج، اضافی سرچارج، ودہولڈنگ ٹیکس، وغیرہ وغیرہ اور بعد میں انہی ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، یہی طریقہ واردات ہے آئی ایم ایف سمیت ہر قرض دہندہ ادارے کا۔ انصافین حکومت جس سے بھی بارہ بلین ڈالر قرض لے گی، اسکی شرائط ماننا لازم ہوں گی۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے مدد مانگنے سے بارہ بلین ڈالر جمع ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں خود ہی سامنے آجائے گا بشرطیکہ عمران خان کی انصافین حکومت اس آپشن پر کام کرے۔
پچھلی تحریر تک سعودی و چینی سفیروں نے عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ اس اپ ڈیٹ کے لکھے جانے تک ترکی کی جانب سے اعلیٰ سطحی ٹیلیفونک رابطہ ہوچکا، برطانیہ کے ہائی کمشنر عمران خان سے ملے جبکہ بنی گالہ ہی میں ایرانی سفیر مہدی ہنردوست بھی ملاقات کرکے جاچکے ہیں اور یورپی یونین کے سفیر نے پیر کے روز ملاقات کی ہے۔ ہر ملک تعاون کا یقین دلا رہا ہے، لیکن امریکہ کا لب و لہجہ بلیک میلنگ اور دھمکیوں پر مبنی ہے۔ یورپی یونین کے سفیر کی ملاقات کے حوالے سے جو خبر جاری کی گئی، اس پر یقین کر لیا جائے تو فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی فہرست سے پاکستان کے نام کے اخراج کے لئے یورپی یونین کے سفیر نے نئی ممکنہ حکومت کو تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان کا نام امریکہ نے یورپی ممالک ہی کی مدد سے اس فہرست میں شامل کروایا تھا اور بدقسمتی سے سعودی عرب نے بھی امریکہ کا ہی ساتھ دیا تھا جبکہ چین بھی خاموش رہا تھا۔ کیا ایسے ’’دوستوں‘‘ کے آسرے پر پاکستان کوئی بڑا کام کرسکتا ہے!؟ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کے آغاز کے لئے متعلقہ محکمے نے نئی حکومت کے لئے کاغذی کام مکمل کرلیا ہے، کیا نئی حکومت کی ترجیحات میں پاکستان کی انرجی سیکٹر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس منصوبے پر اپنے حصے کے کام کی تکمیل شامل ہے، یہ بھی جلد ہی پتہ چل جائے گا۔
اب تک جو تبدیلی آئی ہے، وہ اس حد تک ہے کہ لیگی و پیپلی حکومت کی بجائے مرکز میں انصافین کی حکومت بننے کے روشن امکانات ہیں، لیکن پاکستانیوں کے لئے یہ صرف چہروں کی تبدیلی ہے، حقیقی تبدیلی تب ہی آسکے گی، جب وزارت عظمٰی پر فائز نیا چہرہ گھسی پٹی انحصار طلب پالیسی اور حصول قرض برائے ادائیگی قرض کی پرانی خارجہ پالیسی اور منافرت پھیلانے والے انتہاء پسند اور دہشت گرد گروہوں اور انکے پورے نیٹ ورک کے خلاف زبانی جمع خرچ پر مبنی داخلہ پالیسی کو یکسر مسترد کرکے اس کے برعکس پالیسی نافذ کرے۔ کالعدم دہشت گرد گروہ کے لئے نرم گوشہ اور بارہ بلین ڈالر قرض کے لئے کشکول، یہ وہی پرانا پاکستان ہے، لیگی، پیپلی حکومتوں والا، جبکہ الیکشن کے بعد اس میں جو نیاپن نظر آیا ہے، وہ صرف جماعت کے نام اور اکا دکا چہروں کا ہے! البتہ یہ خدشات ہیں، جو ظاہر کئے جا رہے ہیں جبکہ نئی حکومت کے پاس اقتدار و اختیار ہوگا، جس کے ذریعے وہ ان خدشات کو غلط ثابت کرتے ہوئے حامیوں کی توقعات پر پورا اترسکتی ہے، البتہ یہ بہت ہی دشوار و پرخطر راستہ ہے، جہا
ں وہ جماعتیں بھی اپنا بھاری بھر کم وجود رکھتی ہیں، جن کے خلاف عمران خان ایک طویل عرصے سے مہم چلاتے رہے ہیں اور اب وہ بھی انصافین کے ساتھ وہی رویہ روا رکھیں گے، جو انصافین اور انکی قیادت نے متعارف کروایا تھا۔