علامہ اقبالؒ اہل فارس کی فکری عملی میراث
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اقبالیاتی ادب میں کتب کی اشاعت فروغِ فکرِ اقبالؒ میں ایک خاطر خواہ اضافہ ہے۔ اقبالیات کو فروغ دینے میں کتب کی اشاعت کا یہ سلسلہ کماحقہ‘ اس بات کی دلیل ہے کہ علامہ اقبالؒ کی فکر عالمگیریت و ہمہ جہت ہے۔ اقبالیاتی ادب میں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں کتب شائع ہوئیں لیکن اُن میں بہت کم کتب نے پڑھنے والوں پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ”اھلِ فارس کی فکری و عملی میراث اور علامہ اقبالؒ‘‘ بھی ہے۔ اپریل 2018ء میں اس کتاب کی طباعتِ سوم منظرِ عام پر آئی۔ اس کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر بریگیڈیئر(ر) وحید الزمان طارق ہیں۔
وحیدالزمان صاحب نے پاکستان کی مسلح افواج میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور علم کے مزید حصول کی خاطر اُنھوں نے اپنے اس سفر کو جاری رکھا. ڈاکٹر وحیدالزمان نے ایران سے فارسی ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے فارسی ادب اور ایرانی تاریخ کا جس گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ موجودہ دور میں اقبالؒ شناسی میں فارسی ادب پر جو دسترس انہیں حاصل ہے وہ کسی اور ماہراقبالیات کے ہاں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کا ثبوت اُن کی اس کتا ب کے مطالعہ سے بھی عیاں ہے۔
”اہلِ فارس کی فکری وعملی میراث اور علامہ اقبالؒ‘‘ کے ابواب کی فہرست پر اگر نظر ڈالی جائے تو اسے چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ قدیم اسلام سے قبل قدیم فارس کی تاریخ‘ دوسرا حصہ اسلام کی آمد کے بعد فارس پر اُس کے اثرات‘ تیسرا حصہ اسلام کے بعد کا ایران اور آخری حصہ علامہ اقبالؒ اور ایران ہے۔ مصنف نے ان موضوعات کو تیرہ ابواب میں قلم بند کیا ہے جس میں ہر موضوع کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ فارس کی تاریخ اور اس موضوع پر جس گہرائی سے مصنف نے قلم اُٹھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کیوں کہ فارس کی تاریخ پر ہمیں کتب تو بےشماردستیاب ہیں لیکن قدیم فارس کی ادبی روایات‘ تاریخ‘ جغرافیہ اور دیگر ایسے مختلف موضوعات، جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق فکرِ اقبالؒ سے ہو‘ ایسی معلومات خال خال ہی نظر آتی ہیں۔
مصنف اُن تمام موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں جن کو پڑھ کر ایک عام قاری فارسی ادب کی اُن اصطلاحات‘ استعارات و اشارات سے بخوبی واقفیت حاصل کر لیتا ہے جو کلامِ اقبال میں جابجا ملتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم فارسی ادب کے ان گوشوں سے آشنائی حاصل نہیں کریں گے ہم پر کلامِ اقبالؒ کا واضح ہونا دشوار ہو گا۔ کتاب کا دوسرا حصہ بھی اپنی مثال آپ ہے. اس میں مصنف نے اسلام کی آمد کے بعد قدیم فارس پر اُس کے اثرات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ یہ حصہ اس لیے بھی اہم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث وواقعات یہاں پیش کیے گئے ہیں جن کا براہِ راست تعلق فارس کی قدیم تہذیب و تمدن اور تاریخ سے ہے۔ اقبالیاتی ادب میں ایسی مثال شاید ہی پہلے کہیں دیکھنے میں ملی ہو۔ اس کے بعد کتاب میں اسلام کے بعد کا ایران پیش کیا گیاہے۔ اس میں موجودہ ایران کی تاریخ‘ ثقافت و تہذیب کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ جدید فارسی ادب کے بہت سے گوشے مصنف ہمارے سامنے اُجاگر کرتے نظرآتے ہیں۔ جامعیت کے ساتھ قدیم و جدید فارس کے تاریخی و ادبی‘ ثقافتی و تہذیبی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے بعد مصنف نے علامہ اقبالؒ کو پیش کیا ہے۔ یہ کتاب اس لحا ظ سے اہم ہے کہ جب ہم علامہ اقبالؒ کے ایران اور فارسی ادب کے ساتھ لگاؤ تک پہنچتے ہیں، ہم پر اُس کا پس منظر مصنف فصیح و بلیغ انداز میں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی نظر میں فارس کی جو اہمیت ہے اُس کا اندازہ اُن کی بیاض کے اس مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
”اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ اسلامی تاریخ میں سب سے اہم واقعہ کونسا ہے تو میں بلا ہچکچاہٹ کہوں گا ’فارس کی فتح‘۔ نہاوند کی لڑائی نے عربوں کو نہ صرف ایک خوبصورت ملک دیا بلکہ ایک ایسی قدیم تہذیب دی یا زیادہ بہتر طور پر یوں کہنا چاہیے کہ ایسی قوم سے آگاہی دی جو سامی اور آریائی مواد سے ایک نئی تہذیب کو جنم دے سکتی تھی۔ ہماری اسلامی تہذیب سامی اور آریائی تصورات کی باہمی پیوند کاری کی پیداوار ہے۔ یہ ایسے نوعمر کی طرح ہے جس کو دھیما پن اور شائستگی اس کی آریائی ماں سے اور پختہ کردار اس کے سامی باپ سے ترکے میں ملا۔ لیکن فارس کی فتح کے بغیر اسلامی تہذیب یک طرفہ رہ جاتی۔ فارس کی فتح سے ہمیں وہی کچھ ملا جو کہ رومیوں کو یونان کی فتح سے ملا تھا‘‘۔
علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا بیان سے اس کتاب کی اہمیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے کہ فارس کی تاریخ و تمدن‘ ثقافت و ادب سے آگاہی اقبالیات کے دلدادہ قارئین کے لیے کس قدر اہم ہے۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مصنف نے آسان اور سادہ زبان استعمال کی ہے۔ فارسی زبان کی اہمیت تو علامہ اقبالؒ کی نثر و شاعری میں واضح ہے۔ جیسا کہ خود انھوں نے فرمایا تھا کہ:
پارسی از رفعتِ اندیشہ ام
در خورد با فطرتِ اندیشہ ام
یہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے اپنی زندگی میں کبھی ایران کا سفر نہیں کیا لیکن اُنہیں اپنے عہد کے ایران کے حالات و واقعات اور ملّتِ ایران کی زبوں حالی کی بابت کس قدر معلومات تھیں، اس ضمن میں بھی مصنف نے خوب قلم آزمائی کی ہے۔ کتاب ہذا کا پیش گفتار اور ابتدائیہ بھی اپنی اہمیت کا حامل ہے جس میں مصنف نے نہ صرف اُن محرکات کا ذکر کیا ہے جن کی
بنیاد پر کتاب تحریر کی گئی بلکہ اہلِ فارس کا مختصر تجزیہ بھی پیش کیا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ جس انداز سے مصنف نے اہل فارس اور ایران کا پس منظرپیش کیا ہے اس حوالے سے یہ کتاب علامہ اقبالؒ کے چاہنے والوں کے ذہنوں پر گہرے نقوش ثبت کرے گی۔ اس کتاب کو ”مکتبہ خدام القرآن‘ لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے.