امام حسین ؑ کی عزادار مملکت پاکستان کا محرم
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: عرفان علی
یوں تو پوری دنیا میں نواسہ رسول خدا حضرت محمد مصطفٰیﷺ، حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے جاں نثار اصحابؓ و اہلبیت ؑ کے یادگار قیام اور مظلومانہ ترین شہادتوں کی وجہ سے قمری ہجری اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام ممتاز مہینہ ہے، لیکن پاکستان میں اس محترم مہینے کو دیگر اس جیسے ممالک کی نسبت بہت ہی زیادہ اہمیت اور خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ پاکستان نے خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) کے عشق میں گنبد خضراء کے سبز رنگ کو جس طرح اپنی ذات میں سمولیا ہے، اسی طرح پاکستانیوں کے لب سرور و سید الکونین (ص) کے لئے ’’کالی کملی والے‘‘ کا نغمہ گنگناتے نظر آتے ہیں۔ مولا و آقا سرور کائناتﷺ کی یاد میں ماہ ربیع الاول اپنے ہرے بھرے رنگ کے ساتھ سرسبزی و شادابی لاتا ہے تو کالی کملی والے (ص) کے نواسے (ع) کے قافلے کی بھوک و پیاس، ان پر کئے گئے مظالم و مصائب کی یاد محرم میں پاکستان کو سوگ کی سیاہ چادر میں لپیٹ لیتی ہے۔
پاکستان میں کہیں مباہلے کے میدان میں نانا رسول اللہ (ص) کے ساتھ جانے والے (کہ جنکی وجہ سے ان پانچ مقدس ہستیوں کیلئے پاکستان و بھارت میں پنجتن پاک (ع) کی اصطلاح رائج ہے)، یعنی واقعہ مباہلہ بیان کیا جاتا ہے تو کہیں حسنین کریمین (ع) کے لئے جوانان سردار جنت کی ناقابل تردید حدیث یاد کی جاتی ہے۔ ہر سال محرم پاکستانیوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ وہ ہستیاں ہیں، جن کے کپڑے آسمان سے آتے تھے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کا قصیدہ سورہ کوثر و سورہ دہر سمیت جابجا قرآن شریف میں موجود ہے۔ دو نواسے جب محبوب خدا حبیب کبریا ﷺ کی پشت پر سوار ہو جاتے تھے تو خدا کی وحی کے بغیر کوئی کام انجام نہ دینے والے پیامبر اعظم (ص) سجدے سے اس وقت تک سر نہ اٹھاتے، جب تک یہ پشت سے ہٹ نہ جائیں۔ پاکستانیوں کو چونکہ یہ سارے واقعات معلوم ہوتے ہیں، اس لئے ماہ محرم میں انکی آنکھ گریاں ہو جاتی ہے۔ انہیں ام المومنین بی بی ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی روایت یاد رہتی ہے کہ جب رسول صادق اعظم (ص) انکے گھر تشریف فرما تھے اور وہاں حضرت جبرائیل (ع) نے امام حسین (ع) کی کربلا میں شہادت سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ اس سانحہ کی خبر امام حسین (ع) کے بچپن ہی میں دی جاچکی تھی اور اس پر رسول اکرم (ص) ملول بھی تھے۔ ان واقعات کو کسی ایک مسلک یا فرقے سے منسوب کرکے رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ اسلامی تاریخ و احادیث کی ان کتب میں موجود ہیں کہ جو سبھی کے لئے مستند ہیں۔
یوں محرم امام حسین (ع) کے عاشقوں کا مہینہ بن کر نئی آب و تاب کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ سڑکوں، چوراہوں، گلیوں، محلوں کی سطح پر پانی و شربت کی سبیلیں لگ جاتی ہیں اور وہاں یہ لکھا دیکھا جاسکتا ہے کہ پانی پیو تو یاد کرو پیاس امام (ع) کی۔ یوں امام حسین (ع) کی وہ نصیحت یاد آجاتی ہے کہ جب کبھی پانی پیو تو یاد کرنا کہ کس طرح میں اپنے پیاسے کمسن بچے کے لئے پانی مانگ رہا تھا، لیکن (یزیدیوں نے) اس پر بھی رحم نہ کیا۔ میں اپنے بچپن سے دیکھتا آیا ہوں کہ شب عاشورا گلیوں، محلوں، بازاروں میں جوانوں کی ٹولیاں شہدائے کربلا کی یاد میں حلیم کی نیاز خود تیار کیا کرتی تھیں۔ پوری رات دیگوں میں حلیم کو گھوٹا لگایا جاتا تھا۔ جوان باری باری یہ کام اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سنیوں کو یکم محرم سے نہ صرف پانی و شربت کی سبیلیں لگاتے بلکہ حلیم کی نیاز بناتے بھی دیکھا ہے اور یہی نہیں بلکہ محرم میں یاد امام مظلوم (ع) میں نوحے سنتے بھی دیکھا ہے۔ سنی و شیعہ تو مسلمان ہیں، میں نے ہندوؤں اور مسیحیوں کو بھی یاد امام حسین (ع) و شہدائے کربلا مناتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حتیٰ کہ انہیں ماتم کرتے بھی دیکھا ہے۔
جس محلے میں میرا بچپن و لڑکپن گزرا، وہاں سنی خواتین حتیٰ کہ بوڑھی خواتین محرم کے پہلے عشرے کی راتوں میں محلے کی امام بارگاہ جایا کرتی تھیں، جہاں ایک بڑے کمرے میں شبیہ تابوت (تعزیہ) پر چاندی کی بالیاں تک نذر کیا کرتی تھیں۔ آج بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں امام حسین (ع) و اہلبیت علیہم السلام کا توسل پیش کرنے سنی شیعہ امام بارگاہوں میں آکر نذر مانتے ہیں اور منت پوری ہونے پر تشکر کے اظہار کے طور پر ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ میں ان واقعات کا چشم دید گواہ ہوں کہ شبیہ تابوت (تعزیہ) کے نیچے سے بچوں کو گزارا جاتا ہے، تاکہ امام حسین (ع) کی شفاعت ہو۔ بچوں کو امام حسین (ع) کا فقیر بنایا جاتا ہے، بعض جگہوں پر اس کو سقہ بنانا کہتے ہیں، یہ روایت بھی سنیوں میں آج بھی ہے کہ سبز رنگ کا کرتا، قمیص یا سبز رنگ کا کپڑا رکھ کر خاندان اور قریبی خونی رشتے داروں سے امام حسین (ع) کا فقیر بن کر پیسے جمع کئے جاتے ہیں، جس سے نیاز (تبرک) خرید کر محرم الحرام میں قریب ترین امام بارگاہ پر نذرانے کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے، جو وہیں عزاداروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کی وہ ثقافت ہے جو دنیا کے سامنے اسکے حسینی رنگ کو پیش کرتی ہے، لیکن افسوس کہ آج بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اس جذبے کو رپورٹ کرنے سے قاصر ہے۔
آج جس طرح پاکستان کا منفی چہرہ پیش کیا جاتا ہے، پاکستانیوں کی اکثریت اس کے برعکس حقیقت رکھتی ہے۔ شاید یقین نہ آئے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ امام حسین (ع) کی عزاداری ایک ایسا عمل ہے، جو شیعہ اثناء عشری تک محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر مسالک حتیٰ کہ ادیان کے پیروکار بھی شامل ہیں۔ میرے
علم میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ عزاداری کے قدیم ماتمی جلوسوں کے پرمٹ، متعدد شبیہ ذوالجناح و متعدد امام بارگاہیں سنیوں کے نام سے رجسٹرڈ ہیں۔ یہ سنی عزادار صدیوں سے اجداد کی اس روایت کو موجودہ اور اگلی نسلوں تک پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر پاکستان کا یہ حسینی رنگ نہ ہوتا تو دشمن اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ تکفیری ناصبی گروہ کو قائم کرنے کے لئے پاکستان کی سرزمین کا انتخاب کرتا۔ کافر کافر کے نعرے کے لئے دوسرے ممالک بھی ہوسکتے تھے، لیکن جس سرزمین پر غیر شیعہ بھی اہل بیت علیہم السلام سے اس حد تک محبت رکھتے تھے کہ ماہ محرم میں سنی شیعہ کا فرق کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، اسکے انتخاب کی وجہ ہی یہی تھی کہ عزاداری نے حسینی اسلام کی قبولیت کے علاوہ محبان اہل بیت (ع) اور آزاد انسانوں کے لئے کوئی دوسری راہ ہی نہیں چھوڑی تھی۔ یہ کرشماتی سرزمین، حسینیت سے عشق کے معجزات سے بھری یہ سرزمین کہ جہاں امام زادگان خاندان اہل بیت (ع) کے مزارات مقدسہ آج بھی مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں، ان پر دہشت گردوں کے حملوں کا مقصد سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ یہ مزارات مقدسہ بھی حسینیت کے ترجمان ہیں۔
ایک ایسا ملک و قوم جس کا بانی و بابائے قوم محمد علی جناح ایک اثناء عشری شیعہ مسلمان ہو، جس کا نظریہ ساز مفکر و قومی شاعر علامہ اقبال جیسا حسینی سنی ہو، اگر حسینیت یہاں نہیں ہوگی تو پھر کہاں ہوگی؟ وہ اقبال کہ جس کا عقیدہ: اول مسلم شہہ مردان علی ہو، جسے اسلام کے دامن میں سوائے سجدہ شبیری و ضرب ید اللہی کے کچھ اور نظر ہی نہیں آیا، پاکستان اس اقبال کی سرزمین ہے۔ پاکستان اس شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سرزمین ہے کہ جس نے شہدائے کربلا کو اور جوانان جنت کے سرداروں کی یاد میں کیڈارو (یعنی جنگ کا میدان) کے عنوان سے ایک عرفانی نوحہ لکھا۔ پاکستان کو اہل بیت علیہم السلام سے محبت ورثے میں ملی ہے۔ امام حسین (ع) اور جاں نثاروں پر ڈھائے گئے مظالم و مصائب کا سوگ و ماتم یہ وہ میراث ہے، جو ان بزرگان دین نے اس سرزمین کے حلالی فرزندوں کے لئے چھوڑی ہے۔ پاکستان کا حلالی فرزند اپنی اس حسینی روایات کا امین آج بھی ہے۔
بلاشبہ پاکستان حسینی کربلائیوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کہیں پاراچنار میں امام حسین (ع) کی مقدس حسینی ذریت سے عارف حسینی نے اپنے جد امجد کی پیروی کرتے ہوئے یزیدیت کے مقابلے میں قیام کیا اور مظلومانہ شہادت کے ارفع مقام پر فائز ہوگئے۔ یہاں کہیں کراچی میں مظفر کرمانی تو کہیں حیدر و حسنین عباس ؑ نے حسینیت کی راہ میں جان نچھاور کی تو اسکے کسی اور مقام پر ڈاکٹر محمد علی نقوی و علی ناصر صفوی کو فکر حسینی و کربلائی پر استقامت دکھانے کی سزا دی گئی، کہیں علامہ حسن ترابی و علامہ ضیاء الدین رضوی تو کہیں محفل مرتضیٰ تو کہیں محفل عباس (ع) میں نماز فجر کے نمازیوں کا اور کہیں جمعہ کی نماز تو کہیں مغرب کی نماز میں فائرنگ اور دھماکے کرکے، نمازیوں کا قتل عام کرکے یزیدیت نے اپنی غلاظت کو ظاہر کیا۔ ثابت ہوا کہ مسئلہ سڑک پر عزاداری کا نہیں ہے بلکہ یزیدیت کا بغض و کینہ حسینیت سے ہی ہے۔ کوئٹہ کا بہشت زینبؑ ہو یا کراچی کا وادی حسین (ع)، وادی سلام، باغ زہرا ؑ، ان قبرستانوں میں خاک نشین شہداء اس لئے عرش مکین ہیں کہ انہوں نے حرم آل رسول اللہ (ص) کے دفاع کے لئے فضا میں موجود حسینی و مہدوی استغاثہ پر لبیک کہا۔ وہ جو نشتر پارک میں خاتم الانبیاءﷺ کی پرنور ولادت کی سالگرہ پر عید مناتے ہوئے شہید ہوئے، وہ جو امام زادگان کے مزارات مقدسہ پر کراچی، سہون، لاہور، اسلام آباد سمیت کہیں بھی خودکش تکفیری دھماکوں کا نشانہ بنے، یہ سبھی شہداء، پاکستان کے حسینی و حیدری رنگ کے مظاہر تھے۔
یہ ناچیز محرم کے اس محترم و پرفیض مہینے کو اسی لئے پاکستان میں یزیدیت کی شکست سے تعبیر کرتا ہے کہ اس مہینے کی عزاداری یزیدیت کے نظریات کو دفن کرکے رکھ دیتی ہے۔ محرم ہم پاکستانیوں کے لئے ایک خاص مہینہ ہے۔ یہ مہینہ، اس مہینے کی مجالس، محافل، جلوس، نوحے، مرثیے، سبیلیں، حلیم کی نیاز، دیگر تبرکات، لباس عزا، شبیہ علم حضرت عباس علمدار، شبیہ ذوالجناح، یہ سب کچھ سانحہ کربلا اور امام حسین (ع) اور ان کے حسینی قافلے پر ڈھائے گئے مظالم و مصائب دنیا کو ہر سال یہ یاد دلاتے ہیں کہ خاندان محمد پیامبر خداﷺ کی عزت و حرمت کو اگر کسی سے خطرہ لاحق ہے تو وہ یزیدیت ہے اور خاندان نبوت (ص) سے یزیدیت کو جو مسئلہ ہے، وہ دراصل خاندان نبوت (ص) کا دنیا کے ستم رسیدہ انسانوں کیلئے برابر کے حقوق کی عملی جدوجہد اور دکھی انسانیت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا حقیقی بندہ بنانے اور دنیا کے باطل خداؤں کے مقابلے میں قیام کا عملی نظریہ ہے۔
بلاشبہ عزاداری سیدالشہداء نے پاکستانیوں کو حسینی و کربلائی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی اس کربلا میں بھی حسینی شہداء کا مقدس لہو شامل ہے۔ تمام تر حملوں اور پروپیگنڈا کے باوجود ہر سال پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے شہدائے کربلا و نواسہ رسول (ص) کی یاد منانا، پاکستانیوں کا وہ امتیاز ہے، جسے پاکیزہ دلوں کے بادشاہ سخی مولا حسین (ع) کا خدا نظر بد سے بچائے۔ آج کا پاکستان شہید محسن نقوی کے اس شعر کی عملی تصویر ہے:
گلی گلی میں اسی کا پرچم، اسی کا سجدہ جبیں جبیں ہے
قدم قدم پہ سبیلیں اسکی، نظر نظر میں وہی مکیں ہے
ہوا ہوا میں اسی کے نوحے، وہی تصور خلا نشیں ہے
اسی کا ماتم ہے آگ پر بھی، اسی کا غم خلد کا امیں ہے
فلک فلک پہ لہو اسی کا، اسی کی مجلس زمیں زمیں
ہے
حسینیت کو مٹانے والو، حسینیت اب کہاں نہیں ہے؟