Uncategorized

لاپتہ شیعہ اسیروں کو عدالتوں میں پیش کرکے صفائی کا موقع دیا جائے، علامہ مرزایوسف حسین

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)مجلس علمائے شیعہ پاکستان کے سربراہ اور بزرگ عالم دین علامہ مرزایوسف حسین نے گلستان جوہر میں برآمد ہونے والے جلوس عزا میں اسیر شیعہ نوجوانوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان نوجوانوں کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے صفائی کا موقع دیا جائے اگر کوئی نظام ہے تو؟؟، عزاداران سید الشہداء کی کثیر تعداد نے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کی،علامہ مرزایوسف حسین نے اپنے خطاب میں احتجاج کرتے ہوئےمزید کہا کہ کے-الیکٹرک کی انتظامیہ نے مسجد وحدت المسلمین سے برآمد ہونے والے جلوس کے راستوں میں شرارتاً 5 بجےکے بعد سے تمام لائٹیں بند رکھی جو افسوس ناک اور شرمناک عمل ہے ہم اسکی بھرپور مزمت کرتے ہیں،انتظامیہ اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسکی تحقیقات کرائیں کہ یہ کس کی سازش تھی اور اس سازش کے پیچھے کون لوگ تھے؟؟ انہیں بے نقاب ہونا چاہیئے. کوئی سکیورٹی کا انتظام نہیں تھا ساری گلیاں کھولی ہوئی تھی اور رابطے کازریعہ بھی بند کیا ہوا ہے، اندھیرا الگ ہے اگرچہ ہم نے تمام سکیورٹی کے متعلقہ اداروں کو پہلے سے مطلع کیا ہوا ہے اور درخواستیں رسیو کرائی ہوئی ہیں اور اطلاع دی ہوئی ہے کہ یہاں سے بہت بڑا جلوس نکلتا ہے. ہزاروں کی تعداد میں نوجوان شرکاء سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے اور احتجاجاً انھوں نے دھرنا دیا، شاید دشمن یہی چاہتا تھا کہ شرکاء جلوس دھرنا دیں اور جلوس میں شامل نا ہوں اورجلوس کا نظام درہم برہم ہو مگر ہم نے اُس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیا. میں نے نوجوان شرکاءجلوس سے درخواست کی کہ اس سازش کو کامیاب نا ہونے دیں آپ چلیں مرکزی جلوس میں شریک ہوں اور جہاں ہمارا خطاب ہوگا وہاں ہم انتظامیہ کو بھی بتائینگے اور ان لوگوں کو بھی بتائینگے جو انتظامیہ کے سامنے جاکر شیعہ قوم کی نمائندگی کرتے ہیں، اگر نمائندگی کرنی ہے تو بھرپور نمائندگی کریں اور ان مسائل کو حل کریں ورنہ کسی کو نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے،شرکاء جلوس نے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے لبیک یا حسین۴ کے نعرے لگائے۔

علامہ مرزایوسف حسین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عزاداری سید الشہداء جس کو آج تک نا بند کیا جاسکا ہے اور نا کوئی بند کرسکتا ہے، ہم نے کربلا میں اُس دور میں زیارت کی ہے جب پابندی تھی اور اگر کوئی عزادار وہاں جانا چاہتا تھا تو اگر دو عزادار جانا چاہتے تھے تو ان میں سے ایک کوقربان ہونا پڑتا تھا مگر یہ اس قوم کی قربانی ہے ایک قربان ہوتا تھا اور ایک زیارت پر جاتا تھا. ایک آدمی جارہا ہے تو وہ کہتے تھے ایک ہاتھ کٹوائیں پھر جائیں، لوگ ہاتھ کٹوا کر جاتے رہے، وہ کہتے تھے ایک پیر کٹوا کر جائیں لوگ پیر کٹوا کر جاتے رہے. یہ وہ قربانی ہے جسکی مثال دنیا آج تک پیش نہیں کرسکتی اور ہم اس قربانی سے بعض آنے والے نہیں ہیں. بعدازاں علامہ مرزایوسف حسین نےشہید مرتضیٰ کویاد کرتے ہوئےکہا کہ یہاں جو اجتماع ہوتا ہے اور سبیل لگائی جاتی ہے انکی یاد میں لگائی جاتی ہے، اسکے بعد شہدا کی بلندی درجات کیلئے دعا کی گئی اورعلامہ صاحب نے مصائب سید الشہدا پیش کئے اور ماتمی انجمن نے نوحہ خوانی کی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button