مضامین

زائرین کی مشکلات

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر:۔ سید توکل حسین شمسی

زائرین کی مشکلات کو ہم چند دستوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

ویزے کی مشکلات
1۔ سب سے پہلے 30 سال سے کم عمر زائر کے ایرانی ویزے کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے اگر کچھ لوگ سوء استفادہ کرتے ہیں تو ان زائرین کے لئے کوئی اور متبادل راہ ہونی چاہیئے۔

2۔ عراقی ویزے کے متعلق ہر سال بہت ساری غلط خبریں اڑا دی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے بہت سارے زائر عراقی باڈرز پر پھنسے رہتے ہیں، لہذا اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی قابل اعتماد ذریعہ ہونا چاہیئے، جو زائرین کو مطلع کرے اور فوراً جھوٹی خبروں کی تردید کرے اور یہ عمل کوئٹہ میں پررنگ ہونا چاہیئے۔

3۔ ویزے کے رد ہونے کی صورت میں علل و اسباب بیان نہیں کئے جاتے، جس کی وجہ سے زائر اکثر مختلف دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔

4۔ ویزہ کے حصول میں آنے والی نئی شرائط اور تبدیلیوں کو فوراً زائرین اور سالاروں تک نہیں پہنچایا جاتا، جن کی وجہ سے زائر کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔

کانوائے کی مشکلات
یہ وہ مشکل ہے جس سے زائرین کو آتے جاتے دوچار ہونا پڑتا ہے، کبھی کوئٹہ میں چند دن قیام تو کبھی پاکستان ہاؤس میں قیام، جس کی وجہ سے زائر اور سالار دونوں کو ہی اضافی رقوم کھانے اور رہائش کی مد میں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دن کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

باڈرز کی مشکلات
1۔ ایرانی بارڈرز ہوں یا عراقی دونوں پر ہی اردو مترجم موجود نہیں ہوتے، جن کی وجہ سے اکثر زائرین بارڈرز ملازمین کی بات سمجھ نہیں پاتے، جس کا نتیجہ زائرین کے ساتھ بد سلوکی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

2۔ گم شدہ سامان کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، بارڈرز والے کسی کا سامان کسی کے ذمہ لگا دیتے ہیں کہ وہ ساتھ لے جائیں اور پہنچائیں۔

پاکستانی بسوں کی مشکلات
اگر کوئی سالار پاکستانی بس لے کر جا رہا ہے تو اس کو چند چیزیں ضرور مدنظر رکنا چاہیئے۔
1۔ ایران انٹر ہونے کے بعد آپ کو بس کے لئے روٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی فیس پاکستان سے انٹر ہوتے وقت لگ بھگ 250 $ اور عراق سے ایران انٹر ہوتے وقت 287 یورو کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا یہ پہلے سے ساتھ لے کر آئیں، اس کے علاوہ تومان الگ ہیں۔

2۔ ایران میں ہر گاڑی والے کے پاس ڈیزل یا پیٹرول کے کارڈز ہوتے ہیں، جن کو کارت سوخت کہا جاتا ہے، جس سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں، لیکن پاکستانی بس کے لئے ایسا نہیں ہوتا۔ ان کو بعض اوقات ڈیزل کے لئے بلیک میں کئی گنا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے یا پھر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے، جہاں اتنے پیسے روٹ کی مد میں لئے جاتے ہیں، وہاں یہ کارڈ بھی دے دیا جائے اور اس کی قیمت لے لی جائے، تاکہ زائرین خواری سے بچ جائیں۔

3۔ سالاروں کو چاہیئے کہ وہ ایسی گاڑیاں لے کر آئیں، جن کے ڈیزل کا ٹینک حد اقل 300 لیٹر ہو، تا کہ ایران کے صحراؤں میں مشکل پیش نہ آئے۔

4۔ ایرانی ٹریفک پولیس کی طرف سے پاکستانی گاڑیوں کو بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ اوور لوڈنگ ہوتی ہے، جو کہ سراسر زائرین سے زیادتی ہے، کیونکہ پاکستانی بس میں سامان زیادہ تر بس کے چھت پر رکھا جاتا ہے، جبکہ ایرانی بس میں نیچے رکھا جاتا ہے، لہذا پولیس کی توجہ اس طرف مبذول کروائی جائے۔ نوٹ جو بسوں والے تاجروں کا سامان لاتے ہیں، ان کو رعایت دلوانا مقصود نہیں۔

5۔ ایران سے خروج کے وقت ڈیزل 50 لیٹر سے زیادہ ہونے کی صورت میں بس کو 4 لاکھ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، جو کہ زائرین کے ساتھ زیادتی ہے، بالخصوص وہ عراق میں پیٹرول پمپ تک نہیں پہنچ سکتے، لہذا یا تو گھنٹوں عراق کی سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں یا پھر رشوت دے کر اپنا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ رشوت کا بازار بارڈرز پر خوب گرم ہے، ایک دستخط کا ریٹ ایک ہزار روپے ہے، ایک بس سامان کے ساتھ گزارنے کا ریٹ 12 سے 14 ہزار ہے، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔

6۔ مہران شہر سے نکلتے وقت ہر پاکستانی زائر سے 20 ہزار تومان لئے جاتے ہیں، جس کی کوئی رسید نہیں دی جاتی جو کہ سراسر شہرداری والے کھاتے ہیں، کیا زائرین سے اس طرح پیسے لینا یہ زائر معصومین علیهم السلام کی توہین نہیں؟

ایران و عراق کی داخلی مشکلات
1۔ سب سے بڑا مسئلہ جس سے زائرین یا سالار دچار ہوتے ہیں، وہ مترجم کا نہ ہونا ہے، قافلہ سالاروں کو چاہیئے کہ اس طرف بھی توجہ دیں اور ایک مترجم کا بندوبست کریں۔

2۔ زیارات کو آج کل ایک درآمد کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، جس کے سبب وہ معنوی و روحانی فضا ایجاد نہیں ہوتی، جو انسانوں میں انقلاب کا باعث بنے اور ان کے کردار و اخلاق میں حسینی خوشبو پیدا کرے، لہذا کاروانوں کے ساتھ ایک روحانی رہنما و عالم دین ضرور ہونا چاہیئے، جو زائرین کو زیارت بامعرفت انجام دینے میں مدد کرے، کیونکہ زیارات معصومین علیهم السلام کے اپنے کچھ آداب ہیں، جن کی رعایت زیارت کے اجر و ثواب میں اضافے اور قبولیت کا باعث بنتی ہے۔ لہذا زائرین کو ہر مقام اور صاحب زیارت کے متعلق معرفت ہونی چاہیئے، زیارت کا جو ثواب روایات میں ذکر ہوا ہے، وہ زیارت بامعرفت سے حاصل ہوتا ہے۔

3۔ اکثر سالاروں کے رویہ میں مقابلہ بازی دیکھی گئی ہے، ان میں یہ اخلاقی صلاحیت
نہیں ہوتی کہ اگر ان کو کسی زیارت کے متعلق معلومات ہیں، وہ دوسرے سالاروں یا زائرین کو بھی بتائیں۔

4۔ اکثر پاکستانی زائرین ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے، حتی ایک کاروان کے زائرین، بہت زیادہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی زائر مریض ہو جاتا ہے یا دنیا سے چلا جاتا ہے تو دوسرے زائرین کچھ خاص تعاون نہیں کرتے۔ کربلا قربانی و تعاون کی ایک مجسم تصویر کا نام ہے، اگر کربلا کا زائر ہی ان صفات سے عاری ہو تو گویا وہ کربلا کی توہین کر رہا ہے، اس نے کربلا کے گلی کوچے، بازار تو دیکھے ہیں، لیکن کربلا نہیں دیکھی۔

5۔ ایران کے اپنے رسم و رواج ہیں اور عراق کا اپنا رہہن سہن جبکہ ہمارا اپنا سلیقہ ہے، کچھ چیزوں کا تعلق دین سے ہوتا ہے تو کچھ چیزیں مٹی سے تعلق رکھتی ہیں، لہذا زائرین کو پہلے سے مطلع کریں کہ وہاں کے لوگوں کا کوئی عمل یا طریقہ کار دیکھ کر حواس باختہ نہ ہوں اور تحمل سے کام لیں۔ اخلاقیات کا دامن تھامے رکھیں، آپ اپنے ملک و ملت کے سفیر ہیں، آپ کا ایک ایک عمل آپ کی ایک ایک حرکت آپ کے ملک کی عزت یا ذلت کا باعث ہو سکتا ہے۔

6۔ ہم اکثر زیارت پر آنے سے پہلے کچھ شرائط اپنے ذہن میں سوچتے ہیں، اس سالار کے ساتھ جانا ہے، جو اچھا کھانا، اچھی رہائش، اچھی ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ گھر جیسا ماحول دے، لیکن کبھی کسی عالم سے یہ نہیں پوچھتے کہ امام صادق علیہ السلام نے زیارت کی کیا شرائط بیان کی ہیں۔ اکثر زائرین کے جھگڑے ان خود ساختہ شرائط کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کتنی بُری بات ہے، کتنی ہی کربلا والوں کی توہین ہے کہ ہم وہاں پر بھی کھانے اور رہائش پر جھگڑا کریں، جن کا کھانا بھوک تھی اور رہائش جلے ہوئے خیام۔

7۔ لیکن اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ سالار نے جو زائرین کے ساتھ طے کیا ہے، اس کا وہ مطالبہ نہیں کر سکتے اور سالاروں کو بھی چاہیئے اپنے وعدے وعید کی پاسداری کریں۔ لیکن جھگڑا کرنا اچھی بات نہیں، اس مشکل کے حل کے لئے کوئی مناسب راستہ ہونا چاہیئے۔

8۔ اکثر سالار معمر زائرین کو ساتھ لاتے ہیں، جو بیچارے نہ خود سے زیارات کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے لباس اور دوسرے مسائل کو مدنظر رکھ سکتے ہیں۔ جو نہ صرف دوسرے زائرین کے لئے مشکلات کا باعث ہوتے ہیں بلکہ ملکی آبروریزی کا باعث بھی بنتے ہیں، ایسے صاحبان کی خدمت اور ثواب کے لئے کوئی اپنا ضرور ساتھ ہونا چاہیئے۔

9۔ کچھ سالار زائرین کو تنہا چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں یا ان سے فراڈ کرتے ہیں، لہذا ایک کمیٹی ہونی چاہیئے جو ان مسائل کا جائزہ لے اور ایسے سالاروں سے جو قوم و ملت کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں، آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔

10- ان مشکلات کے علاوہ بہت ساری اور مشکلات بھی ہیں، وفات پانے والے زائرین کی تدفین کے مسائل، مریض زائرین کے مسائل، پاسپورٹ گم کرنے والے یا خود گم شدگان کے مسائل، جن کے لئے ایک شعبہ زائرین یا ایک انقلابی کافی نہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button