مضامین

یمن کے امن مذاکرات اور پس پردہ امریکی اہداف

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )تحریر: محمد علی

ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حکومت موجودہ صورتحال میں یمن کی جنگ ختم کرنا نہیں چاہتی لہذا اس کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کی پیشکش درحقیقت ایک ہتھکنڈہ ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے یمن کی جنگ ختم کر کے امن مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکی وزیر دفاع جیمز مٹیس نے بھی امریکی تھنک ٹینک "پیس اسٹڈیز” میں تقریر کرتے ہوئے یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور آئندہ تیس دن کے اندر اندر جنگ بندی کے قیام اور امن مذاکرات کے آغاز پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن پر ہوائی حملوں کو روک دینا چاہئے اور فوجیں اپنی سرحدوں تک واپس آ جائیں۔ امریکی وزیر دفاع جیمز مٹیس نے کہا کہ یمن سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفتھس کو جنگ کے اختتام کیلئے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس جنگ کے تمام فریق خاص طور پر سعودی عرب اور انصاراللہ آپس میں بات چیت شروع کریں۔

یمن کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جارحیت کے آغاز کے بعد یہ پہلی بار ہے جب امریکہ نے سعودی عرب اور اپنے اتحادی ممالک سے براہ راست طور پر اس جنگ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر دفاع کی جانب سے اپنی تقریر میں بروئے کار لانے والے الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ، اس کے اتحاد ممالک اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 سے عدول کر چکے ہیں۔ جیمز مٹیس نے اپنی تقریر میں کہا: "فریقین کے درمیان بات چیت، مذاکرات کی میز کی لمبائی اور شکل کے بارے میں نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی اس کا نتیجہ ایک فریق کا دوسرے پر تسلط کی صورت میں نکلنا چاہئے بلکہ ان مذاکرات کا اہم ترین موضوع سرحدوں سے فوجیں ہٹانے پر مشتمل ہونا چاہئے۔”

امریکی وزیر دفاع کا یہ مطالبہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 کے خلاف ہے اور اس کے ساتھ تضاد رکھتا ہے۔ مذکورہ بالا قرارداد میں پہلے مرحلے پر انصاراللہ یمن کو مخاطب قرار دیا گیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر سرحدوں اور زیر قبضہ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائیں اور اقتدار ملک کے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے سپرد کر دیں۔ لہذا امریکہ کا حالیہ مطالبہ جو سلامتی کونسل کی قرارداد میں پیش کردہ مطالبے سے کم ہے ایک طرح سے امریکہ اور سعودی عرب کی شکست اور اسلامی مزاحمت کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 میں ذکر شدہ تمام نکات کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیتے تھے لیکن اب ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب امریکہ نے یمن جنگ کے خاتمے کا جو مطالبہ پیش کیا ہے اور امن مذاکرات کے آغاز پر زور دیا ہے اس کے پس پردہ کیا مقاصد چھپے ہوئے ہیں؟

یمن کی جنگ بہت طول اختیار کر چکی ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کے اتحادی عرب ممالک ایک تھکا دینے والی جنگ میں پھنس گئے ہیں۔ لہذا اس وقت امریکہ کی پہلی ترجیح سعودی عرب اور خطے میں اپنے دیگر اتحادی ممالک کو یمن کی جنگ کی دلدل سے باہر نکالنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات کے آغاز پر مبنی مطالبے کے تین بنیادی اہداف ہیں۔ ایک یہ کہ الحدیدہ بندرگاہ پر قبضہ سعودی عرب کی نظر میں اس جنگ کو اپنے حق میں ختم کرنے کا آخری موقع ہے۔ اسی لئے سعودی اماراتی اتحاد نے تقریباً 6 ماہ پہلے اس بندرگاہ پر قبضے کیلئے بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ الحدیدہ کی بندرگاہ سے یمنی عوام کی روزمرہ ضروریات کا 70 فیصد سامان درآمد ہوتا ہے۔ سعودی اتحاد اس بندرگاہ پر قبضے کے ذریعے انصاراللہ کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ یمن جنگ کو آبرومندانہ انداز میں اختتام پذیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات کے آغاز کا دوسرا ہدف مغربی دنیا میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خراب ہوتی ہوئی پوزیشن کو بہتر بنانا ہے۔ حکومت مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں مغربی ممالک میں انتہائی ناپسندیدہ تاثر قائم ہو چکا ہے۔ لہذا امریکی حکام یمن جنگ کو رکوا کر سعودی ولیعہد کا اچھا چہرہ پیش کرنے کے درپے ہیں۔ تیسرا مقصد یمن کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف بڑھتے ہوئے میزائل حملوں کو روکنا ہے۔ یہ میزائل حملے سعودی عرب کے اندر اور باہر آل سعود رژیم کے اقتدار کو دھچکہ پہنچنے کا باعث بنے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق سعودی عرب یمن جنگ میں ماہانہ 6 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کر رہا ہے۔ سعودی حکومت نے 1990ء سے ملک میں پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کر رکھا ہے جس کا ہر میزائل فائر ہونے کا خرچہ 3 ملین ڈالر ہے۔ لہذا یمن کی جانب سے میزائل حملوں نے سعودی عرب کے جنگی اخراجات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button