ترکی میں سعودی ولیعہد کے مشیروں کے وارنٹ جاری
عدالتی دستاویز میں ملزمان کو قتل کا منصوبہ ساز قرار دیا گیا ہے، احمد العسیری جنرل انٹیلی جنس کے سربراہ تھے جبکہ قحطانی ولی عہد کے اہم مشیر تھے۔
سعودی عرب کی جانب سے خاشقجی کے اپنے سفارت خانے میں قتل کا اعتراف سامنے آنے کے بعد دونوں کو برطرف کردیا گیا تھا ۔
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع جم میٹس کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل پر کچھ کہنے سے پہلے مزید شواہد درکار ہیں ۔
جم میٹس نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حقیقت جاننے کے لیے مزید شواہد حاصل کرلیں گے، فی الحال انہیں علم نہیں کہ آگے کیا ہوگا اور کسے قتل کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد بن سلمان کا براہ راست ہاتھ ہے۔
واضح رہے کہ سی آئی اے کی ایک ٹیم نے رواں برس اکتوبر میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے بیدردی سے قتل کی تفتیش کرکے اپنی رپورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کی تھی جس میں قتل کی منصوبہ بندی میں سعودی عرب کی اہم ترین شخصیت کے ملوث ہونے کا اشارہ کیا گیا ہے۔