شہیدعلی رضا عابدی سپرد خاک، گارڈ زیر حراست، تحقیقات میں اہم پیش رفت
سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو ڈیفنس کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا تاہم ان کے قتل کی تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آگئی۔
گزشتہ روز کراچی میں قتل کیے جانے والے سیاست دان علی رضا عابدی کی نمازِ جنازہ کراچی کے علاقے ڈیفنس کی امام بارگاہ یثرب میں علامہ حسن نقوی نے پڑھائی جس میں اعلیٰ شخصیات، سیاسی و سماجی رہنماؤں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
نمازِ جنازہ کے بعد سابق رکن قومی اسمبلی کو ڈیفنس کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔نمازِ جنازہ کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ علی زیدی نے علی رضا عابدی کے قتل اپنا ذاتی نقصان قرار دیا۔
انہوں نے عرم کا اظہار کیا کہ حکومت ان کے قاتلوں کو پکڑ کر کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے۔
ان سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ علی رضا عابدی کا خون ضائع نہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لہر آرہی ہے اور کچھ لوگ سرگرم ہوئے ہیں جبکہ مہاجروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ حکومت کو پہلے بھی خط لکھ چکے ہیں کہ کراچی کی سیکیورٹی کے بارے میں بھی سوچیں۔
اس سے قبل علی رضا عابدی کے گھر پر معروف سیاسی و سماجی شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جنہوں نے متوفی کے اہلِ خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا۔
علی رضا عابدی کا قتل، گارڈ زیر حراست
قبلِ ازیں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی جنوبی پیر محمد شاہ کا کہنا تھا کہ علی رضا عابدی کے قتل کا مقدمہ ان کے والد کے فیصلے کے بعد درج کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ علی رضا عابدی کا گارڈ تربیت یافتہ نہیں تھا، اور اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی پیر محمد شاہ نے یہ بھی کہا کہ سیکیورٹی گارڈ کا نام قدیر ہے اور اس کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے جسے علی رضا عابدی نے 2 سے 3 ماہ قبل ہی ملازمت پر رکھا تھا۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ علی رضاعابدی معمول سے قبل ہی کل گھر پہنچ گئے تھے کیونکہ انہوں نے اپنی بیٹی کو عشائیے کے لیے لے کر جانا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کی نوعیت دیکھنے کے باوجود ان کے گھر والوں نے کسی کے بھی خلاف شک و شبے کا اظہار نہیں کیا۔
ایس ایس پی نے کہا کہ اس قتل کے پیچھے محرکات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا، اس قتل کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ جائے وقوع سے تمام شواہد جمع کر لیے گئے ہیں جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیجز سے بھی مدد لی جارہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کےموبائل کا بھی فرانزک کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 25 دسمبر کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے علی رضا عابدی کو زخمی کردیا تھا جنہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر علی رضا عابدی کے والد نے ایک پیغام میں کہا کہ ان کے بیٹے کو سفاکی سے قتل کردیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس نے بھی ان کے قتل کا حکم دیا اس پر ساری زندگی ایک شریف آدمی کے قتل کی وجہ سے لعنت پڑتی رہے گی۔ایک اور پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں امن و امان بحال کرنے کی کوششوں کی وجہ سے وہ کسی کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے تھے، اور اس کے علاوہ ان کے قتل کی کوئی دوسری وجہ نہیں دکھائی دیتی۔علی رضا عابدی قتل کیس میں اہم پیشرفت
پولیس ذرائع کے مطابق علی رضا عابدی کے قتل میں استعمال ہونے والا کا پستول لیاقت آباد میں احتشام نامی نوجوان کے قتل میں بھی استعمال ہوا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ 30 بور پستول سے 10 دسمبر کو لیاقت آباد میں نوجوان کو قتل کیا گیا اور اسی پستول سے علی رضا عابدی کو نشانہ بنایا گیا۔
پولیس نے دونوں وارداتوں کا معمہ ایک ساتھ حل ہونے کی امید ظاہر کردی۔
پولیس کے مطابق احتشام کےقاتلوں کی عمریں بھی 19سے 20سال کے درمیان تھیں اور قتل کی دونوں وارداتوں میں طریقہ کار بھی ایک ہی اپنایا گیا۔
علاوہ ازیں بتایا گیا کہ احتشام نامی نوجوان جرائم پیشہ شخص عرفان کی سابقہ اہلیہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔
عرفان سے متعلق بتایا گیا کہ وہ کرکٹ میچ پر جوا بھی چلاتا تھا،ایم کیو ایم سے سے بھی روابط تھے۔
بتایا گیا کہ عرفان مقتول احتشام کی گلی میں رہتا تھا اور 8ماہ پہلے ہی کھڈا مارکیٹ منتقل ہوا تھا۔
پولیس نے احتشام کے قتل میں عرفان کے ملوث ہونے کے شبہات ظاہر کیے اور بتایا کہ ’عرفان پر کرائے کے قاتوں سے احتشام کو قتل کرانے کا شبہ ہے‘۔
اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ’عرفان واقعے کے بعد سے غائب ہے، ایران چلے جانے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں‘۔