Uncategorized

پاکستان الیکشن 2018: کالعدم تنظیم سے تعلق اور انتخابات ساتھ ساتھ؟

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں اداہ)پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیم اہلسنت و الجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کا نام انسداد دہشت گردی کے تحت ترتیب دی گئی واچ لسٹ یعنی فورتھ شیڈول سے دو برس قبل خارج کیا جا چکا تھا۔اس کے باوجود ان پر چند پابندیاں بھی عائد تھیں اور ان کے معاشی اثاثہ جات منجمد تھے۔ تاہم حال ہی میں ان پر عائد تمام پابندیاں ہٹا کر ان کو ان کے بینک اکاؤنٹ اور اثاثہ جات تک رسائی دے دی گئی ہے۔صوبہ پنجاب کے نگراں وزیرِ داخلہ شوکت جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ اہلسنت و الجماعت تاحال کالعدم جماعت ہے تاہم اس کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کے خلاف چند پابندیاں برقرار تھیں جو اب ختم کر دی گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مولانا احمد لدھیانوی نے انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے درخواست دیتے وقت وفاقی حکومت کو لکھا تھا کہ ان کا نام فورتھ شیڈول میں نہیں ہے تو ان پر پابندیاں کیوں عائد ہیں۔’اس کے بعد وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے اس کی تصدیق کی جس کے بعد ان پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لی گئیں ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کسی شخص کا نام فورتھ شیڈول سے ہٹانے کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے جو کہ ایک جاری عمل ہے۔ اس کے مطابق ایک کمیٹی اس میں شامل افراد کے کردار اور کارروائیوں کا مسلسل جائزہ لیتی رہتی ہے اور اس کے بعد وہ اس کو ہٹانے کی سفارش کرتی ہے۔اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کے وفاقی ادارے نیکٹا کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ محکمہ داخلہ پنجاب نے رواں ماہ کی 14 تاریخ کو ایک خط کے ذریعے انھیں مطلع کیا تھا کہ مولانا احمد لدھیانوی کا نام فورتھ شیڈول میں نہیں ہے۔’اس کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے نیکٹا نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مولانا احمد لدھیانوی کے بینک اکاؤنٹ اور معاشی اثاثہ جات غیر منجمد کرنے کے لیے خط لکھا دیا تھا۔‘اب مولانا احمد لدھیانوی اپنے معاشی اثاثے استعمال کرنے میں آزاد ہوں گے۔حال ہی میں ان کو الیکش ٹرائبیونل کی جانب سے صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ کے حلقہ این اے 115 سے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس سے قبل ریٹرنگ افسر کی جانب سے ان کے کاغذات نامزدگی اس اعتراض کے ساتھ مسترد کر دیے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمات درج تھے اور ان کا نام فورتھ شیڈول میں شامل تھا۔تاہم اپیل کرنے پر لاہور کے الیکشن ٹریبیونل نے تمام اعتراضات مسترد کر دیے تھے۔ ان کے ساتھ ہی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن پنجاب اسمبلی مولانا مسرور نواز جھنگوی اور مولانا معاویہ اٰعظم طارق کو بھی الیکشن ٹرائبیونل کے جانب سے انتخابات سے میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی تھی۔تینوں امیدوار تاحال انتخابات میں آزادانہ حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ قانونی طور پر محض مقدمات یا فورتھ شیڈول میں نام شامل ہونے کی وجہ سے کسی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کالعدم تنظیموں سے منسلک ہونے یا ان کا رکن ہونے کے باوجود ان رہنماؤں کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔فورتھ شیڈول انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت ترتیب دی جانے والی وہ فہرست ہے جس میں ان شخصیات کے نام شامل کیے جاتے ہیں جن کے بارے میں دہشت گرد یا فرقہ وارانہ کارروائیوں یا جماعتوں کے ساتھ تعلق ہونے کی حکومت کو اطلاع ہو یا شبہ ہو۔یہ فہرست انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی شق 11 ای ای کے تحت ترتیب دی جاتی ہے۔ نیکٹا کے مطابق تاحال سات ہزار سے زیادہ افراد اس شیڈول میں شامل ہیں۔ ان افراد کی حرکات و سکنات پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے اور ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کو کئی پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ نیکٹا کے عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی بھی شخص کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے یا پھر اس کو ہٹانے کا فیصلہ صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے۔کالعدم تنظیموں سے تعلق ہونے یا ماضی میں ان سے وابستگی ہونے یا پھر فورتھ شیڈول جیسی فہرستوں میں شامل ہوہنے کے باوجود ایسی تنظیموں کے ارکان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کیسے مل جاتی ہے؟پاکستان میں انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیموں کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ موجودہ قوانین ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کسی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں، پاکستان کا کوئی بھی شہری انتحابات میں حصہ لینے کا حق رکھتا ہے۔’تنظیم کو تو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تاہم اس کے ارکان کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا۔ اس لیے ان افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی بار نہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ افراد کسی نئے نام کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں۔حال ہی میں ان قوانین میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ کسی کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم کا رکن شخص اگر کسی نئی تنظیم کا حصہ بنے گا تو اس تنظیم کو بھی کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔’تاہم پھر بھی وہ شخص کالعدم نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق کسی فرد کا نام فورتھ شیڈول پر ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فہرست میں نام محض شبہ ہونے کی بنیاد پر شامل کیا جاتا ہے جس کے بعد چند پابندیاں عائد ہوتی ہیں اور نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔’تاہم جب تک آپ کسی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں ہیں تو اس بات سے کوئ
ی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے خلاف مقدمات ہیں یا آپ پر کوئی شبہ ہے، آپ انتخابات میں حصہ لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔‘احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ قانونی طور پر مذہبی تنظیم جیسا کہ جماعتہ الدعوتہ کو کسی سیاسی جماعت کا اندارج کروانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ملی مسلم لیگ کے نام سے جماعتہ الدعوۃ نے ایک سیاسی جماعت قائم کی تھی جس کو رجسٹر کرنے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انکار کر دیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن کے اس اقدام کے خلاف ملی مسلم لیگ نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا
مولانا مسرور نواز جھنگوی سنہ 2016 کے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں جھنگ سے آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ خود مولانا احمد لدھیانوی گذشتہ انتخابات میں این اے 89 سے الیکشن لڑ چکے ہیں اور مختصر وقت کے لیے ان کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں فاتح بھی قرار دے دیا گیا تھا تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ختم کر دیا۔
مولانا مسرور جھنگوی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب
احمد بلال محبوب نے اسی امر کی جانب اشارہ کیا کہ جس وقت مولانا مسرور نواز جھنگوی نے انتخابات میں حصہ لیا اس وقت ان کا نام فورتھ شیڈول میں شامل تھا مگر اس کی وجہ سے انھیں الیکشن سے نہیں روکا جا سکا۔مولانا مسرور نواز جھنگوی اور مولانا معاویہ اعظم طارق پی پی 126 جھنگ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔کالعدم تنظیموں سے تعلق ہونے یا ماضی میں ان سے وابستگی ہونے یا پھر فورتھ شیڈول جیسی فہرستوں میں شامل ہوہنے کے باوجود ایسی تنظیموں کے ارکان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کیسے مل جاتی ہے؟پاکستان میں انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیموں کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ موجودہ قوانین ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کسی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں، پاکستان کا کوئی بھی شہری انتحابات میں حصہ لینے کا حق رکھتا ہے۔’تنظیم کو تو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تاہم اس کے ارکان کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا۔ اس لیے ان افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی بار نہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ افراد کسی نئے نام کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں۔حال ہی میں ان قوانین میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ کسی کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم کا رکن شخص اگر کسی نئی تنظیم کا حصہ بنے گا تو اس تنظیم کو بھی کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔’تاہم پھر بھی وہ شخص کالعدم نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق کسی فرد کا نام فورتھ شیڈول پر ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فہرست میں نام محض شبہ ہونے کی بنیاد پر شامل کیا جاتا ہے جس کے بعد چند پابندیاں عائد ہوتی ہیں اور نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔’تاہم جب تک آپ کسی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں ہیں تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے خلاف مقدمات ہیں یا آپ پر کوئی شبہ ہے، آپ انتخابات میں حصہ لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔‘احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ قانونی طور پر مذہبی تنظیم جیسا کہ جماعتہ الدعوتہ کو کسی سیاسی جماعت کا اندارج کروانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ملی مسلم لیگ کے نام سے جماعتہ الدعوۃ نے ایک سیاسی جماعت قائم کی تھی جس کو رجسٹر کرنے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انکار کر دیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن کے اس اقدام کے خلاف ملی مسلم لیگ نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا
مولانا مسرور نواز جھنگوی سنہ 2016 کے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں جھنگ سے آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ خود مولانا احمد لدھیانوی گذشتہ انتخابات میں این اے 89 سے الیکشن لڑ چکے ہیں اور مختصر وقت کے لیے ان کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں فاتح بھی قرار دے دیا گیا تھا تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ختم کر دیا۔

مولانا مسرور جھنگوی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب
احمد بلال محبوب نے اسی امر کی جانب اشارہ کیا کہ جس وقت مولانا مسرور نواز جھنگوی نے انتخابات میں حصہ لیا اس وقت ان کا نام فورتھ شیڈول میں شامل تھا مگر اس کی وجہ سے انھیں الیکشن سے نہیں روکا جا سکا۔مولانا مسرور نواز جھنگوی اور مولانا معاویہ اعظم طارق پی پی 126 جھنگ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
مولانا معاویہ اعظم طارق جھنگ سے تعلق رکھنے والی کالعدم مذہبی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ مولانا اعظم طارق کے صاحبزادے ہیں۔ مولانا اعظم طارق سنہ 2003 میں اسلام آباد کے قریب ایک حملے میں مارے گئے تھے۔مولانا مسرور نواز جھنگوی سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی رہنما اور سابق سربراہ حق نواز جھنگوی کے صاحبزادے ہیں۔1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی سپاہ صحابہ پاکستان کو پر تشدد فرقہ وارانہ کارروائیوں میں شامل ہونے کے الزامات میں سنہ 2002 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد وہ اہلسنت والجماعت کے نام سے سامنے آ گئی۔اہلسنت والجماعت کو بھی سنہ 2012 میں کالعدم قرار دے دیا گیا اور اس کا نام نیکٹا کی ویب سائٹ پر موجود کالعدم تنظیموں کی فہرست میں تاحال موجود ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button