مضامین

یمن میں سعودی جنگی جرائم

تحریر: ڈاکٹر محمد جواد گودینی

جب ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اصولوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس بین الاقوامی ادارے کے چارٹر میں جن جرائم کا ذکر ہوا ہے بلکہ ان سے چند گنا زیادہ جرائم یمن کی سرزمین پر انجام پا چکے ہیں۔ گذشتہ چار برس سے یمن کو فوجی اقدامات اور جنگی جرائم کے ارتکاب کا اکھاڑا بنایا گیا ہے۔ دیگر ممالک کے خلاف جنگ کا آغاز بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کنونشنز کی روشنی میں جرم کا واضح مصداق ہونے کے باوجود امریکہ نے بھی گذشتہ چار سال سے یمن کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں جارح اتحاد کی بھرپور سیاسی اور فوجی امداد جاری رکھی ہے۔ یمن میں امریکہ کی حمایت سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فوجی اتحاد کی جانب سے عام شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اس جنگ کے باعث یمن میں شدید قحط اور غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے، وبائی امراض میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور کروڑوں عام شہری بھوک اور بیماری کی وجہ سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام موارد بین الاقوامی قوانین کی رو سے جنگی جرائم کا مصداق ہیں۔

یمن میں سعودی اتحاد کی جانب سے انجام پانے والے جنگی جرائم کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ اس سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ ان اداروں نے سعودی عرب کو وارننگ بھی دی ہے لیکن گذشتہ دو سالوں سے جنگ میں جاں بحق ہونے والے یمنی شہریوں کے اعداد و شمار جاری نہیں کئے گئے تاکہ دنیا والے یمن میں انجام پانے والے ہولناک قتل عام کی حقیقت سے باخبر نہ ہو سکیں اور اس ملک میں سعودی اتحاد کے مجرمانہ اقدامات پر پردہ پڑا رہے۔ مثال کے طور پر ایک نمونہ پیش کرتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت میں اب تک تقریباً 10 ہزار عام شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ صرف بھوک سے مرنے والے یمنی بچوں کی تعداد 85 ہزار کے قریب ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ کی جانب سے 2016ء میں پیش کئے گئے تھے۔ اگر ہم ایسے افراد کی تعداد بھی سامنے رکھیں جو بیماری خاص طور پر ہیضے کی وبا سے موت کا شکار ہوئے ہیں تو اس وقت ہمیں اس سانحے کی وسعت کا اندازہ ہو گا۔ یمن کی نصف آبادی جس کی تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ کے قریب ہے شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ ان حقائق پر پردہ ڈالنے سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر آل سعود رژیم کو رسوائی سے بچانا چاہتے ہیں اور ان کا یہ اقدام سعودی اتحاد کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ یمن کا بحران عالمی برادری کی فوری توجہ کا محتاج ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے عالمی اداروں کو موثر اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا میں نئے سال کا جشن منایا جا رہا ہے اور دنیا بھر کی عیسائی برادری اس عید کی مناسبت سے ایکدوسرے کو مبارکباد پیش کر رہی ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یمن نامی ایک ایسا ملک بھی موجود ہے جہاں کی عوام بھوک سے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ کی حمایت اور مدد سے اس ملک کے خلاف شرمناک جنگی جرائم کے ارتکاب میں مصروف ہیں۔ دنیا والوں کو جان لینا چاہئے کہ اس وقت جب نئے سال کے جشن کی مناسبت سے چہروں پر مسکراہٹ چھائی ہے، سعودی سربراہی میں جارح عرب اتحاد یمن کے نہتے بچوں کی جان لینے میں مصروف ہے۔ ایسے وقت جب دنیا بھر میں کروڑوں افراد خوشی منا رہے ہیں یمنی قوم کے خلاف جاری ظالمانہ محاصرہ جاری ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اتحاد یمنی خواتین اور بچوں کو قتل کرنے کیلئے ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ اب جس وقت سعودی اور اماراتی حکومت نے بہت سے افراد کو نئے سال کے جشن میں مصروف کیا ہوا ہے اس طرف یمنی بچے بھوک سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کے پاس کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں بچا۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کیلئے گھاس اور درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں جن سے انسانیت شرم محسوس کرتی ہے ہم دنیا والوں کو یمن میں ہونے والے واقعات سے آگاہ اور باخبر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ دنیا والے یمنی عوام کو درپیش شدید مشکلات اور بحرانوں سے چشم پوشی نہ کریں اور انہیں سعودی اتحاد کی جارحیت اور جنگی عادت سے نجات دلوانے میں موثر کردار ادا کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button