ہماری آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کا جنازہ نکالنے کی تیاریاں
تحریر: عالیہ شمسی
ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ اعلیٰ حکام اور عوام کا باہمی رابطہ ہے اور یہ باہمی رابطہ اس وقت مزید وسیع اور مضبوط ہو جاتا ہے، جب سربراہان مملکت ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی قسم کے دوروں میں باہمی دلچسپی کے امور خاص طور پر مختلف معاشی معاہدے طے پاتے ہیں۔ باہمی تجارت کے نئے باب کھلتے ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام کے لیے خوشحالی کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، تب سے وزیراعظم مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں اور ان دوروں کی وجہ سے دوسرے ممالک کی معیشت اور اقتصاد کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے، ہمارے ملک کو فائدہ پہنچانے کے دعوے زور و شور سے جاری ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں سے میڈیا پر اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے سعودی کراون پرنس محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کا شور بپا ہے، حکومت اور اپوزیشن تو اپنی جگہ ایک عام شہری بھی یہ سوچ رہا ہے کہ سعودی ولی عہد کے پاکستان آنے کے نتیجہ میں ملک کو کونسا "پیکج”، "خوشخبری” یا دوسرے الفاظ میں قرضہ ملے گا۔؟
پیکج اور خوشخبری کی نئی معاشی پالیسی جو تحریک انصاف حکومت کے آنے کے بعد شروع ہوئی ہے، اس کا انجام تو خدا ہی جانے، لیکن ایک بات ایسے محسوس ہو رہی ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہماری آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کا جنازہ نکالنے کی تیاری ہو رہی ہے، کیونکہ ہم خطے اور خطے سے باہر کے ممالک کی طبقہ بندیوں کو دیکھے بغیر صرف پیکج لینے میں مصروف ہیں اور عالمی دنیا کو گویا یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آئیں اور ہمیں پیکج دیں اور بدلے میں ہماری خدمات لیں۔ ابھی قطر اور سعودی عرب ہی کو دیکھ لیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن اور سخت مخالف ہیں، لیکن ہم دونوں ملکوں سے پیکج لیکر خوشی کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کہیں پیکج لینے اور بدلے میں مطلوبہ سہولیات دینے کے نتیجہ میں ہم اپنی عالمی ساکھ اور قومی خارجہ پالیسی چھوڑ کر کرائے کے بندے نہ بن جائیں، جن کے بارے میں عالمی سطح پر یہ تصور ابھرے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے اصول پر مبنی ہے، جو قطر کو مزدور، سعودیہ کو فوج اور کسی تیسرے ملک کو پیکج کے مطابق کچھ بھی دینے کو تیار ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں، ان کی آمد کے حوالے سے جیسے تیاریاں کی جا رہی ہیں اور انہیں پارلیمنٹ میں خطاب سے لیکر معلوم نہیں کس کس قسم کا پروٹول دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان عنقریب پیکج کے جواب میں یمن مسئلہ کے "پرامن حل” کی بھرپور کوشش کرے گا اور یہ کوشش ممکن ہے اتنی خاموشی سے کی جائے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے پیکج کے نتیجے میں آپ لاکھ کوشش کریں خاموشی اور مخفی کاری کی، لیکن یہ چیزیں چھپائے نہیں چھپتی اور کل کلاں یہ چیزیں پاکستان میں اندرونی مسائل اور مشکلات کا روپ نہ دھار لیں۔ ہاں یاد آیا اگر پیکج کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا اور ایران نے بھی کوئی پیکج پیش کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ ابھی تو ہم سعودیہ اور قطر کی صورت میں دو باہمی دشمنوں کے اکلوتے دوست کی شکل میں موجود ہیں، لیکن ایران کے پیکج کی صورت میں تشکیل پانے والی ٹرائنگل میں ہماری حیثیت کیا ہوگی اور ہماری خارجہ پالیسی کیا رہے گی؟ لہذا ہمیں پیکج اور خوشخبریوں کے بجائے پاکستان کے عالمی امیج کو بہتر بنانے اور عالمی سطح پر ایک خود مختار ریاست کے طور پر سامنے آنا ہوگا۔ مختلف ممالک کے سربراہ پاکستان آئیں یا پاکستانی سربراہ مملکت دیگر ممالک کا دورہ کریں، ہمیں صرف پاکستانی رہنا ہوگا اور پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا۔