مضامین

جواں سال شہید فرزند کی ہڈیاں!

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) بیٹے کی شہادت کو کئی سال گذر گئے تھے مگر بیٹے کا لاشہ مفقود الاثر تھا۔
مفقو الاثر کی اصطلاح اُن شہدا کیلئے استعمال کی جاتی ھے کہ جن کی شہادت کے بعد اُن کا جنازہ نہیں ملتا!
مدتوں بعد جب مفقود الاثر شہداء کے جنازوں کو ڈھونڈنے والے گروہ تفحص (تلاش جسد ہائے شہدا کمیٹی) نے بوڑھے والدین کو خبر دی کہ کئی سالوں بعد جنگ علاقوں کی کھدائی میں اُن کے بیٹے کا جنازہ مل گیا ھے تو دونوں کی پھیکی آنکھوں میں رنگ حیات نظر آنے لگا!

۔
۔
۔
جب بوڑھے والدین کو اُن کے جواں سال شہید بیٹے کے جنازه پر لایا گیا تو دونوں یہ سوچ رھے تھے کہ وہ بیٹے کی لاش سے لپٹ کر رو سکیں گے، شاید غم ہلکا ھو جائے!
مگر
۔
۔
۔
جب وہ جنازے پر پہنچے تو اُن کی حیرت کی انتہاء نہ رہی!
ایک خالی تابوت میں ایک سفید گھٹڑی میں ’’کچھ‘‘ لپٹا ہوا رکھا تھا!!
بوڑھے ماں باپ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور اُن کے اٹھتے ہوئے قدم رک گئے!
وہ تو کسی ’’جسد‘‘ کا انتظار کر رھے تھے!
مگر یہاں کچھ ’’اور‘‘ تھا ۔ ۔ ۔!
اُنہیں بتایا گیا کہ یہی اُن کے بیٹے کا ’’بچا کچا‘‘ جنازہ ھے!
دونوں تابوت کے پاس سر جھکا کر بیٹھ گئے!
باپ نے بیٹھتے ہی سب سے پہلے تابوت پر لکھے شہید کے نام اور ولدیت کو دیکھا!
بالکل صحیح لکھا تھا:
فلاں ابن فلاں۔
باپ نے فیملی نام چیک کیا۔
وہ بھی ٹھیک!
پھر باپ نے کانپتے ہاتھوں سے تابوت پر لکھے نمبروں کو بغور پڑھا اور اُسے اپنے پاس موجود کاغذ پر درج نمبروں سے مطابقت دینے لگا!
KH2030045-1980,
یہ بھی ٹھیک ھے!
مقام شہادت بھی بالکل درست۔
تاریخ شہادت بھی بالکل بجا!
اب باپ کو یقین آگیا کہ وہ اپنے بیٹے کے ہی جنازے پر موجود ہے!
۔
۔
۔
۔
باپ کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ وہ کیا کرے اور جواں سال بیٹے کی ماں کو کیسے دلاسہ دے!
وہ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے سر اٹھایا۔
اُس نے تابوت میں رکھی ہوئی گھٹڑی کو بہت غور سے دیکھا۔
پھر کاپنتے ہاتھوں سے اُس نے گھٹڑی پر ہاتھ پھیرا!
اُسے کوئی سخت چیز محسوس ہوئی!
پھر اُس نے دوبارہ اپنی انگلیوں سے اُس سخت چیز کو دبانا شروع کیا تو اب وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ اُس کے بیٹے کی ہڈیاں ہیں!
وہ ھمت کر کے تابوت کے مزید قریب ھو گیا اور گھٹڑی کو مسلسل دیکھنے لگا!
اُس نے اندازہ لگایا کہ تابوت میں اُس کے کے جواں سال شہید بیٹے کی بچی کچی ہڈیوں کا وزن ۲ کلو سے زیادہ نہیں تھا!
بوڑھا باپ کافی دیرتک سوچتا رھا کہ جواں سال شہید کی بوڑھی ماں کو کس طرح دلاسہ دے!
آخر کار اُس نے سر اوپر کیا اور بیوی سے بولا:
خانم! جائے پریشانی نہیں ھے !!!
جواں شہید کی بوڑھی ماں نے سوالیہ نگاہوں سے پدر شہید کی جانب دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔
بوڑھے باپ نے یہ سوچ کر شاید یہ جملہ مادر شہید کی تسلی کا سبب بنے، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:
اِس کا وزق بالکل اُسی دن کے برابر ھے کہ جب خدا نے اِسے ہمیں بطور تحفہ دیا تھا!
ہائے ۔ ۔ ۔ ماں کی چیخ بلند ہوئی!
دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے گروہ تفحص نے اگلا جملہ یہ سنا ۔ ۔ ۔۔
میرا لعل ۔ ۔ ۔ ۔!
میرا بیٹا ۔ ۔ ۔!
دو لمحے کی خاموشی کے بعد اگلے ہی لمحے سب نے سنا ۔ ۔ ۔ ۔
ہائے علی اکبر ِ حسین!
ہائے مادر علی اکبر ۔ ۔ ۔
۔
۔
۔
۔
اللہ اکبر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button