مضامین

سرزمین وحی حجاز کا نام تبدیل کرنے والے شاہ عبدالعزیز بن سعود کی 22 بیویاں تھیں

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سرزمین وحی اور سرزمین حجاز کا نام تبدیل کرکے سعودی عرب رکھنے والے ڈکٹیٹر بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کی 22 بیویاں تھیں، ان میں سے 17 بیویوں کے ہاں 45 بیٹے پیدا ہوئے، اب آل السعود کے شاہی خاندان کے عیاش اور دین اسلام سے بےخبر شہزادوں کی تعداد 7 ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔

عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے حجاز کا نام تبدیل کرکے سعودی عرب رکھا اور خود کو بادشاہ قرار دیا۔ آل سعود ہی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک کو سعودی عرب کا نام دیا۔ سعودی عرب کے حکمران خاندان کے شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں۔ حال ہی میں مرنے والے شاہ عبداللہ کا تعلق بھی السعود خاندان سے تھا۔ السعود خاندان کا تعلق 18 ویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے۔

سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیاں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران پر رکھا گیا ہے۔ شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ء میں سلفی وہابی نظریہ کے مذہبی عالم محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا۔ محمد بن عبدالوہاب ہی نے ابن تیمیہ کے نظریات کو حجاز میں مسلط کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ بعدازاں سعود بن محمد کی نسل کو 1818ء میں ترکی کی عثمانی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی لیکن اس کے 6 برس بعد ہی سعود خاندان نے صحرائی طاقت کے مرکز ریاض پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنا لیا۔

اس کے بعد عبدالعزیز نے مختلف قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست دیتے ہوئے بہت سے علاقوں کو متحد کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور 1913ء میں خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔ دوسری جانب 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو سعودی عرب میں شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی آخری شریفِ مکہ قرار پائے۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔ حسین بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924ء میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دیئے اور آخر کار 1925ء میں حسین بن علی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔ اس کے بعد عبدالعزیز بن سعود کی طاقت میں اس طرح بھی اضافہ ہوا کہ انہوں نے بہت سے قبائلی سرداروں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں لیکن عبد العزیز کی پشت پر برطانوی ہاتھ بھی نمایاں تھا۔

آج اس ڈکٹیٹر اور مغرب نوازشاہی خاندان کے مجموعی افراد کی تعداد تقریباً پچیس ہزار جبکہ اثرو رسوخ رکھنے والے شہزادوں کی تعداد تقریباً دو سو بنتی ہے۔ اس شدت پسند وہابی ریاست میں تیل کی پیداوار کا آغاز 1938ء میں ہوا، جس کے بعد سعودی عرب کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہونے لگا۔ عبدالعزیز بن سعود کے بیٹوں کی مجموعی تعداد 45 ہے۔ نو نومبر 1953ء میں سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز کا انتقال ہوا اور اس کے بعد سعود کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔ دو نومبر 1964ء کو شاہ سعود کوکرپشن اور نااہلی کے الزامات کے تحت معزول کر دیا گیا اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالا۔ شاہ سعود کی وفات 1969ء کو جلاوطنی میں ہوئی۔ جدید سعودی عرب کے معمار کا خطاب حاصل کرنے والے شاہ فیصل کو مارچ 1975ء میں ان کے ایک بھتیجے نے قتل کر دیاتھا۔ اس کے بعد سعودی عرب کی حکمرانی شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ خالد کے حصے میں آئی اور وہ 1982ء میں اپنی وفات تک حکمران رہے۔ اس کے بعد شاہ فہد حکمران بنے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عمر سے دو سال چھوٹے شاہ عبداللہ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔ 1995ء میں شاہ فہد پر فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد عملی طور پر زیادہ تر فرائض شاہ عبداللہ ہی سرانجام دیتے رہے۔ 2005ء میں شاہ فہد انتقال کر گئے اور ان کی جگہ شاہ عبداللہ نے لی۔جمعہ کو انتقال کرنے والے شاہ عبداللہ کی جگہ اْن کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز نے لے لی ہے۔ یہ پورا خاندان مغرب نواز بالخصوص امریکہ نواز ہے اور مشرق وسطی میں آل سعود خاندان کو امریکی مفادات کا محافظ قراردیا جاتا ہے اور سعودی عرب کے تیل کا اصلی مالک امریکہ ہے لہذا امریکہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں کبھی جمہوریت کی بات نہیں کرتا کیونکہ اگر ان ممالک میں جمہوریت آگئی تو امریکہ اور اسرائیل کو تیل کی سپلائی کسی وقت بھی بند ہوسکتی ہے۔بعض اسلامی مبصر آل سعودی کو آل یہود بھی کہتے ہیں ، اور دنیا بھر میں جاری دہشت گردی کا اصلی مرکز بھی سعودی عرب ہے دنیا میں جتنی بھی دہشت گرد تنظیمیں اس وقت موجود ہیں وہ سب کی سب وہابی نظریہ رکھتی ہیں اوراسلام کے بجائے آل سعودی کے قوانین کو دنیا پر مسلط کرنے کی تلاش و کو شش کررہی ہیں ان تنظیموں میں القاعدہ، طالبان داعش، بوکوحرام ، الشباب ، النصرہ اور انصارالشریعہ شامل ہیں جو افغانستان، پاکستان، عراق، شام، یمن، مصر، سومالی ، نائیجیریا اور یورپی ممالک میں موجود ہیں ان تنظیموں کی تشکیل میں امریکہ، سعودی عرب اور بعض یورپی ممالک کا ہاتھ نمایاں ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button