مضامین

23 مارچ۔۔۔ ہماری کسرِ نفسی اور ہمارا پاکستان

تحریر: نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

ہماری زندگی میں کئی تئیس مارچ آئے اور گزر گئے۔ ہمیں بس اتنا یاد ہے کہ جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو تئیس مارچ کو چھٹی ہوتی تھی، چھٹی کے باعث ہم گھر میں ٹیلی ویژن پر فوجی پریڈ دیکھا کرتے تھے، پھر جب کچھ بڑے ہوئے تو ہمارے سکول میں تئیس مارچ کو طالب علموں کے درمیان تقریری مقابلے ہونے لگے۔ تقریروں کا ہمیں بھی شوق تو بہت تھا لیکن فقط سننے کی حد تک، ہم نے کسرِ نفسی کے مارے کبھی کسی تقریری مقابلے میں شرکت نہیں کی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے چھٹی کلاس میں پہلی مرتبہ اپنے ایک کلاس فیلو کو تقریر لکھ کر دی تھی، انہوں نے تقریر کی اور ہم نے تالیاں بجائیں، اس کے بعد یوں لگتا تھا کہ دوسروں کو تقریریں لکھ کر دینا ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ کالج میں داخل ہوئے تو ہمارے ایک استاد صاحب کو ہماری کسر نفسی کا علم ہوگیا، لہذا سال اول سے ہی انہوں نے ہماری ساری تاویلوں کو پسِ پشت ڈال کر ہمیں زبردستی تقریری مقابلوں میں شامل کروا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسر نفسی یعنی اپنے آپ کو کم رتبہ ظاہر کرنا، عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا موقع و محل کے مطابق بہت اچھی بات ہے، لیکن ہر جگہ اس سے پرہیز کرنی چاہیے۔ وہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ کسی متکبر، بداخلاق اور بدتمیز شخص کے سامنے اگر آپ کسر نفسی کریں گے تو اس سے اس کی اصلاح نہیں ہوگی بلکہ مزید بگڑ جائے گا۔

بگڑنے سے یاد آیا کہ 1940ء میں ہندوستانیوں کے حالات بہت بگڑے ہوئے تھے۔ اسی سال آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک آزاد مسلم مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اس سے پہلے انگلستان کے دو رسالوں میں دو ایسے مضمون چھپے تھے، جنہیں مطالبہ پاکستان کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک انگریز کالم نویس کا تھا، جس کی انہی دنوں میں قائداعظم سے ملاقات ہوئی تھی اور اس کالم میں اسی ملاقات کے حوالے سے بات چیت کی گئی تھی، دوسرا مضمون خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لکھا تھا اور 9 مارچ 1940ء کو ایک مشہور انگلش ہفت روزے [1] میں چھپا تھا۔ اس کے بعد قرارداد پاکستان کا مسودہ صوبہ پنجاب کے یونینسٹ وزیراعلٰی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا اور اس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کسی حد تک ترمیم کی، جس کے بعد 23 مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے آخر میں ایک معروف سماجی و سیاسی شخصیت مولوی فضل الحق نے اس قرارداد کو پیش کیا، جس کی تائید یو پی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی نے کی۔

ہم اسی قرارداد مقاصد کو ہی اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں اور اس کے تمام تر مراحل میں جن شخصیات کے نام آتے ہیں، اگر یہ شخصیات اس وقت کسر نفسی کا مظاہرہ کرتیں اور پیچھے ہٹ جاتیں تو پھر ہندوستان کے مسلمانوں پر کیا گزرتی! کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آئی او کے کنونشن میں مولانا صفدر نجفی مرحوم مہمان خصوصی تھے اور آئی او کے نئے چئیرمین کا انتخاب ہوا تھا۔ نئے چئیرمین نے اپنے خطاب میں کسر نفسی کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ میں تو اس قابل نہیں تھا اور مجھ سے بہتر لوگ موجود تھے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس کے بعد مولانا مرحوم نے اپنے خطاب میں کسر نفسی کو ہی موضوع بنایا اور کہا کہ کسر نفسی سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ منتخب کرنے والے بے وقوف ہیں اور انہیں اہل اور غیر اہل افراد میں فرق کرنا نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ بہتر تو یہ تھا کہ آپ یوں کہتے کہ برادران آپ نے جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، میں اس پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔

آج ہمارے ملک اور معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اہل لوگ، کسر نفسی میں مبتلا ہیں اور نا اہل افراد ہر جگہ اظہار وجود کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس تعلیم اور تجربہ ہوتا ہے، وہ گوشہ نشین رہتے ہیں اور جو تعلیم و تجربے کے لحاظ سے عقب ماندہ ہوتے ہیں، وہ جدید تعلیم کے لئے سکول اور کالج کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں، اسی طرح ہمارے ہاں جب کسی ادارے یا تنظیم کی مسئولیت قبول کرنے کا وقت ہوتا ہے تو اکثر اہل لوگ، کسر نفسی کا اظہار کرکے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، پھر جب کوئی نااہل آدمی سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے تو اہل افراد، فقط تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ ایسے بھی افراد ہیں، جن کا مشن فقط تنقید و تخریب ہوتا ہے، ظاہر ہے ایسے افراد ہماری بحث سے خارج ہیں، ہم فقط تنقید کرنے والے اہل اور مخلص افراد کی بات کر رہے ہیں۔ اہل افراد کے پیچھے ہٹ جانے کے باعث جب کوئی نااہل آدمی سامنے آجاتا ہے تو پھر تنقید کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خواب کو عملی جامہ پہنانے، یعنی تعمیر پاکستان کے لئے خواہ مخواہ کی کسر نفسی سے جان چھڑوائی جائے، تاکہ نااہل لوگوں کا راستہ روکا جا سکے۔ چونکہ اہل افراد کی عقب نشینی سے ہی نااہل افراد کے لئے میدان خالی ہوتا ہے۔ جو ملک نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آیا ہو، لیکن اس کے پاس کوئی نظریاتی نظام تعلیم، اقتصادی اسٹریکچر اور نظریاتی سیاسی کلچر نہ ہو تو پھر کیا اس ملک کی خستہ حالی اور پسماندگی کا ذمہ دار ان پڑھ لوگوں کو قرار دیا جا سکتا ہے!؟ یاد رکھئے! کسی بھی ملک اور معاشرے کو اہل افراد کی خاموشی اور لاتعلقی سے جو نقصان پہنچتا ہے، وہ نااہل افراد کی فعالیت سے کئی گناہ زیادہ ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button