26سالہ قیادت اور بیس سالہ رفاقت کا حاصل ؟
تحریر: معرفت حسین خان
شیعہ نیوز: ملک کے موجودہ سیاسی افق پر پہلی بار ملت تشیع کی بھرپور نمائندگی اورجاندار کردار دیکھنے میں آ رہا ہے جس کو مختلف حلقوں میں مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ان حلقوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیںکہ ایک حلقہ وہ ہے جسکا تعلق تنظیمی و جماعتی سیاست سے نہیں ہے ،یہ قوم کے عام افراد ہیں جو متحرک،فعال اور دو ٹوک موقف رکھنے والی اپنی قومی سیاسی جماعت مجلس وحدت مسلمین کے میڈیا میں کھل کے آنے،موجودہ تکفیری حمایت یافتہ حکمرانوں سے ہر صورت جان چھڑوانے کی جدوجہد کے خاموش حامی ہیں،دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا تعلق کسی نہ کسی قومی جماعت یا تنظیم سے رہا ہے یا اب بھی ہے،اس میں پھر دو طبقات ہیں ایک وہ جو مجلس وحدت مسلمین کے حامی و طرفدار ہیںاور دوسرے وہ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مجلس کی مخالفت،اس کے قائدین کی کردار کشی،اور سوشل میڈیا پر قوم کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہنا نیز قوم پر طوفان آئے یا آندھیاں،آفات ٹوٹ پڑیں یا بلائیں نازل ہو جائیں،خون کی ندیاں بہہ جائیں یا بارود کی بارش ہو جائے،گرفتاریاں ہوں یا پھانسیاں،کال کوٹھڑیاں آباد ہو جائیں یا قوم کا نشان مٹا دینے کی سازشیں رو بہ عمل ہوں ان کا کام بس اپنے حجرے میں مقید قیادت کی حمایت کرنا ان کی فضیلت کے گیت گانا،ان کی برتری،حکمت اور سیاست کی چالوں پر سر دھننا،اور اس محبت میں چڑھتے سورج ،روشن چمکتے چانداور کھلے حقائق کا منہ چڑھانا ہے،اصل میں ان کی حالت تو اب ایسی ہو چکی ہے جن پر کوئی چیز بھی اثر نہیں کرتی اصولی طور پر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی دانائی اور وقت بچانا ہے،مگر کیا کریں کہ ان کی جب ایک نہی چلتی تو جھوٹے الزامات،بیہودہ اتہامات،اور لغو بکواسات کا سہارا لیکر عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں اگرچہ ان کے جھانسے میں اب لوگ نہیں آتے اور انہیں از خود کھری کھری سناتے ہیں اور قوم کو تقسیم کرنے کی ان کی سازش کو بھانپ جاتے ہیں مگر اس کے باوجود کئی باتیں ایسی ہو جاتی ہیں جو ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ قلم اٹھائیں اور ان کی چالوں سے عوام کو آگاہ کریں، چھبیس سال سے قوم پر مسلط ان کی اپنی کارکردگی میں جو عظیم :کارنامے: سرانجام دیئے ہیں ان کا بھی جائزہ لیںاور قوم کو بتائیں کہ۔۔۔
کس طرح ان کے ساتھ فریب اور دھوکہ کیا جاتا رہا۔۔۔
کس طرح انہیں گذشتہ چھبیس سال سے لوٹا جا رہا ہے ۔۔۔
اور کس طرح ان کے وقار،عزت،اور شہرت کو داغدار کیا جاتا رہا ہے۔۔
ہم اس مضمون میں پہلے قوم پر 26سال سے مسلط قیادت کی کارکردگی کاا ختصار سے جائزہ لیں گے اور قوم کو بتائیں گے کہ ان 26سالوں میں سے گزشتہ بیس سال سے قیادت کے تکفیری قوتوں اور طالبانی سرپرستوںسے اتحاد و قربتوں سے ہمیں کیا حاصل ہوا،قوم نے کیا ترقی کی اور قوم کے وقار میں کس قدر اضافہ ہوا۔اس کے بعد ہم آخر میں اس بات کا ذکر بھی کریں گے کہ قومی پلیٹ فارم مجلس وحدت مسلمین کا تکفیری و طالبانی جماعتوں کو چھوڑ کراہلسنت بریلوی برادران سے اتحاد اور وحدت کی فضا قائم کرنے سے کیا حاصل ہو رہا ہے اور اس کے مستقبل پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے۔
ہماری قومی بدقسمتی کہ فرزند امام خمینی ہم سب کے دلوں کے چین علامہ عارف حسین الحسینی کو صرف ساڑھے چار سال تک قوم کی قیادت و سیادت کا موقعہ ملااس مختصر عرصہ میں انہوں نے تمام تر مخالفتوں ،اپنوں کی بے وفائیوں اور ٹانگیں کھینچنے کے باوجودجو کام کیئے وہ ریکارڈ ہیں ان کی جدوجہد کا مینار اس قدر بلند ہے کہ اس تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا ان کی مسند پر بیٹھے قیادت کے علمبرداروں کے تو قطعی طور پر بس کی بات ہی نہیں اس کا ثبوت ان کی تاحیات قیادت میں سے گذرے چھبیس سال کی کارکردگی ہیںجس میں موصوف نے تقریباًبیس سال تکفیری قوتوں اور طالبانی سرپرستوں کی دوستی و ہمراہی میں گذارے ہیں ۔اس اتحاد ، دوستی اور ہمراہی میں ہمیں جو حاصل ہوا وہ یہی ہے کہ ہم۔۔۔
ہزاروں بے گناہ ،معصوم اور بے جرم و خطا مومنین و مومنات کو خون میں نہلایا گیا،قوم کے قیمتی ترین افراد جن میں ڈاکٹرز،انجینئرز،پروفیسرز،ماہرین تعلیم،وکلائ،علمائ،مناظر،خطیب،شعرائ،تنظیمی شخصیات،اعلی ٰسرکاری عہدوں پر فائز افسران ،ججز، سیاست دان ہم سے چھین لیئے گئے،یہ سب ظلم قوم کیساتھ ہوتا رہا اور ہمارا اتحاد ان دہشت گردوں کے سرپرستوں کیساتھ قائم رہا۔
اسی عرصہ میں اس اتحاد کی برکات سے ہمارے دو قیمتی ترین مجاہدین اور قوم کے درد مندان محرم علی و شہزاد علی کو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا،قیادت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور انہوں نے ایک بیان تک دینا گوارا نہ کیا،صرف یہی نہیں کئی دیگر کارکنان جیل کی کال کوٹھڑیوں میں جل مر رہے ہیں ،کئی جیلوں میں بیماریوں میں مبتلا ہو کر جان سے بھی گئے اور کئی ایک نے اپنی زندگیاں قوم کے نام لگانے کے بعد مایوسیوں کے گھیرے میں آ کر اپنی روش ہی بدل لی،اپنے راستے جدا کر لیئے اور کسی نے امان اور پناہ لے لی ۔
اسی عرصہ ءاتحاد میں مفتی جعفر حسین و شہید قائد کی قومی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پر پابندی لگوا بیٹھے اور پھر اپنی جماعت رجسٹرڈ کروا لی گئی جو ایک بار پھر پابندی کے زمرے میں آ گئی،ایسی کمزور قیادت کہ سپاہ صحابہ کے مقابل برسر پیکار شیعہ جماعت سپاہ محمد پر بھی پابندی لگوا بیٹھے اور کچھ نہ کر سکے،موصوف اس پابندی کے بعد خاموشی سے گھر میں بیٹھ گئے جبکہ مخالفین جن
کی سرپرستی انہی کے اتحادی و مہربان دوست فضل الرحمن اور سمیع الحق کر رہے تھے مزے سے کام کرتے نظر آئے،ان کے دفاتر بھی ویسے ہی کھلے رہے جبکہ یہاں حالت یہ ہے کہ اس دور کے بند کیئے گئے دفاتر اب بھی بند پڑے ہیں بلڈنگیں جو قومی امانت کا درجہ رکھتی ہیں انہیں گھن کھائے جا رہا ہے۔ طالبانی و تکفیری قوتوں کے سرپرست و استاد سے موصوف کا اتحاد قائم ہے، مولانا فضل الرحمن سے ذاتی دوستی کے بڑے چرچے ہیں ،جبکہ ملت شیعہ اس شہر سے دربدر اور ہجرت پر مجبور ہے جہاں سے مولانا کو شیعہ امیدوار کے مقابل جتوایا جاتا رہا ہے،جی ہاں ڈیرہ اسماعیل خان سے سینکڑوں مومنین کے گھرانے اپنے آبائی گھروں اور جائیداد کو اونے پونے داموں فروخت کر کے ہجرت کر چکے ہیں اور اتحاد میں کوئی دراڑ نہیں آئی۔اب حالت یہ ہے کہ یہاں نوجوان قومی کام کرتے ہوئے کتراتے ہیں اس لیئے کہ انہیں سخت مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے،اسی شہر میں کچھ مجاھدنوجوانوں کو سرکاری اداروں کی حراست میں شہید کیا گیا ہے مگر مجال ہے کہ موصوف یا ان کے نمائندے میں سے کسی نے بھی ایک اخباری بیان ہی جاری کیا ہو کہ یہ ظلم ہے اسی طرح ڈیرہ جیل کو ان کے اتحادیوں نے توڑا تو وہاں موجود چند شیعہ قیدیوں کو اکٹھا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا ،انہیں ذبح کیا گیا مجال ہے کہ قیادت کے کان پر جوں تک رینگی ہو اور اپنے اتحادیوں سے معمولی شکوہ بھی کرنے کی جرا ءت کی گئی ہو۔
ہر بار وہ کیوںمجھے چھوڑ جاتا ہے تنہا
میں مضبوط تو ہوں ،لیکن پتھر تو نہیں
کرم ایجنسی ،پاراچنار کے حالات آج بھی آئیڈیل نہیں ہیں ،یہاں 2007 ءسے لیکر 2012ءتک مسلسل جنگ رہی ،علامہ صاحب کے اتحادیوں کے بچے جمورے طالبان یہاں کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے تھے،لشکروں کی یلغار رہی،راستوں میں شیعہ مسافروں اور زائرین کو بسوں سے اتار کرانتہائی بے دردی اور ظالمانہ انداز میں شہید کیا گیا،گلے کاٹے گئے،لاشوں کا مسلہ کیا گیا،یہ سب کچھ ہوتا رہا اور اس اتحاد میں کوئی فرق نہ آیا،یہ قربتیں مزید بڑھتی رہیں،اس لیئے کہ اس سے قبل موصوف قائد کے ایک جانثار سپاہی مولانا رمضان توقیر کو دنیا کی تسلیم شدہ خفیہ ایجنسی ( جس پر بلا شبہ ہمیں فخر ہے )کے بنائے گئے مذہبی گرو گھنٹالوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میں مشیر کا عہدہ دے کر لولی پاپ دے دیا گیا تھا،یہ اتنا بڑا احسان تھا کہ جس کا بدلہ شیعہ قوم سے آج بھی دلوایا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اینڈ کو کی مخالفت کو قومی حلقے میںکفر قرار دیا گیا ہے جس کا اظہار علامہ کے حامی آج بھی بر سر عام کر ہے ہیں،اب یہ بات ڈیرہ اسماعیل خان کا بچہ بچہ کہہ سکتا ہے کہ جب تک علامہ صاحب کے نمائندہ مولانا رمضان توقیر وہاں موجود ہیں اس وقت تک ان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے اور جو دشمن ہیں چاہے وہ مولانا اینڈ برادران کی شکل میں ہوں یا کسی اور روپ میں انہیں اہل تشیع کی طرف سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔یہ ہے دوستی اور تعلق کا حق۔۔یہ ہے تکفیری قوتوں سے اتحاد کا تحفہ جو ملت کو مل رہا ہے اور ملتا رہے گا۔ابھی تو صرف چھبیس سال ہی ہوئے ہیں قوموں کی زندگی میں اتنے عرصے کی کیا اہمیت ۔۔قوم بنتے بنتے صدیاں لگ جاتی ہیں۔۔۔ہم تو ویسے ہی انتظار کے عادی ہیںہمیں کونسی جلدی ہے۔
سیاسی حوالے سے موصوف نے جو دوٹوک موقف اور پالیسی اختیار کی اس پر رشک آتا ہے ،ایک زمانے میں ہم پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحادی ہوئے، اس کیساتھ ملکر نواز حکومت کیخلاف لانگ مارچ اور ٹرین مارچ بھی کرتے دکھائی دیئے ، اس کے بدلے میں ہماری زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ ایک سینٹ کی سیٹ تھی جو نہ ملنی تھی اور نہ ہی ملی،متحدہ مجلس عمل میں بھی ہم نے پوری قوم کا وزن ڈال دیا حالانکہ قوم کا مزاج اور چوائس اس تکفیری مزاج اتحادکے بالکل الٹ تھا ،مجلس عمل میںجماعت اسلامی،جمعیت علماءاسلام (فضل الرحمن و سمیع الحق) چھائے ہوئے تھے ہماری حیثیت تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی،ہم عملی طور پر ایک سیٹ بھی نہ جیت سکے،صوبہ سرحد میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے ملکر حکومت بنائی اور جو لوٹ مار کی گئی اس کے قصے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں وہ تاریخی ریکارڈ ہے کہ کسطرح مولانا اینڈ برادران نے سرکاری زمینوں کو کوڑیوں کے بھاﺅ اپنے نام کیااور کس طرح کمیشن کمائے گئے۔۔اور سب سے بڑھ کے اس عرصہ میں ہی طالبان نامی گروہ نے اپنی جڑیں بے حد مضبوط کیں اور ملک کےلئے نیا چیلنج بن کر آئے۔اور آج تک یہ چیلنج ہمارے قومی اداروں کے سامنے ہے جس سے اب اچھی طرح نمٹا جا رہا ہے۔۔مگر اس سب کے ہوتے ہوئے ہماری قیادت کا ان تکفیری قوتوں سے اتحاد قائم رہا اس اتحاد نے علامہ صاحب پر اتنی مہربانی بھی نہ کی کہ انہیں ڈیمانڈ کرنے کے باوجود سینیٹ میں لے جاتے در حالینکہ جماعت اسلامی نے اپنے پروفیسر خورشید کو اپنے صوبائی دفتر میں رہائشی ظاہر کر کے سرحد سے انہیں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر سینیٹر منتخب کروا لیا، سچ کہا ہے کسی نے کہ جب آدمی کی عزت گھر میں نہ ہو تو دوسرے کیونکر اسے آسمان پر بٹھائیں گے؟آپ اس بیس سالہ اتحاد و بھائی چارے کی عمل شکل سپاہ صحابہ کے کسی بھی پروٹیسٹ یا جلسے میں دیکھ سکتے ہیں جو نعرہ وہ لیکر اٹھے تھے اس عرصہ میں وہ ایک نظریہ بنا دیا گیا اور ہمارے اتحادی بھائی جو جب چاہتے ہیں انہیں جہاں روکنا ہو روک سکتے ہیں اور روکتے ہیں انہوں نے اس نعرے کو روکنے یا ان محافل میں جب وہ ان کے ہاں شریک ہوتے ہیں لگانے سے منع نہیں کیا ،جس کا مطلب سمجھ جانا چاہیئے کہ وہ خود بھی اس کے قائل ہیں بس منافقت کی اوڑھنی کیساتھ ہماری قیادتوں کیساتھ اٹھت
ے بیٹھتے ہیں۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا۔ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوںمیں
چھبیس سال ملت پرکرب کی سیاہ رات کی مانند ہیں،ہم نے اس عرصہ میں بہت کچھ کھو دیا ہے، اس عرصہ میں بہت سے ارمان اور آرزوئیں قتل ہوئیں ،یہ ارمان ،آرزوئیں ہمارے ملک کے عوام کی بھی ہیں اور بیرون ملک کے ہمارے خیر خواہوں کی بھی ہیں ،علما ءکی بھی ہیں او خواص کی بھی، رہبر کی بھی اور ان کے دفتر کی بھی( یاد رہے ان کے دفتر کے لوگوں سے روابط کو علامہ کے حامی آج کل سوشل میڈیا پر کھلے عام ایرانی ایجنسیز کے ٹاﺅٹ جیسے الفاظ اور طعنوںسے یاد کرتے ہیں)۔۔۔بہرحال بات طوالت پکڑتی جا رہی ہے میں کیا کروں چھبیس سال کی دردکہانی کو کتنا مختصر کروں اس کو پھر لکھوں گا اگر موقع دیا گیا تو۔۔فی الحال میں یہ بنتا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس بیس سالہ تکفیریوں و طالبانیوں سے اتحاد کے مقابل بریلوی اہل سنت بھائیوں کیساتھ اتحاد کے امت اور ملت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،مزے کی بات یہ ہے کہ اس اتحاد کیخلاف وہ گروہ بھی برسر پیکار ہے جس نے اتحاد پر لمبی چوڑی تقاریر اور پھر کتابی شکل بھی پیش کی ہے ،
جیسا کہ تکفیریوں اور طالبانیوں سے ملت کی قیادت کے علمبرداروں کے بیس سال سے جاری اتحاد کے اثرات کا ذکر کیا گیا اس وقت بھی ملی یکجہتی کونسل کی شکل میں ایک ادارہ ایسا موجود ہے جس میں تمام مذہبی گروہ شامل ہیںمجلس وحدت بھی اس کا حصہ ہے مگر سب جانتے ہیں کہ قاضی حسین احمد کی وفات کے بعد اس کا کردار خاصا محدود سا ہو گیا ہے،وہ جس ویژن کیساتھ اب کی بار اسے چلا رہے تھے اس سے کافی حد تک امیدیں تھیںمگر ان کی رحلت کے بعد جماعت کی امارت منورحسن جیسے متعصب اور طالبانی فکر کے حامل کے ہاتھ میں تھی جس نے اتحاد و وحدت کے تصور پر کاری ضربیں لگائیں ،ایسے میں ہم نے دیکھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں ہماراقتل عام اور ٹارگٹ کلنگ جاری رہی،ذرداری کے گذشتہ پانچ برس میں پنجاب نون لیگ کے پاس رہا جس نے رانا ثنا ءاللہ جیسے کتے پالے ہوئے تھے تاکہ اہل تشیع کو کاٹنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نا جانے دیں،اسی دور میں شیعہ قوم کے تمام قاتل معاہدے کے تحت جیلوں سے رہا کیئے گئے جنہوں نے دوبارہ اپنا منحوس ایجنڈا چلانا شروع کر دیا اور جگہ جگہ،شہر شہر قتل عام کا لائسنس حاصل کر لیا، اب کی بار اہل سنت بریلوی او ر شیعہ دونوں نشانے پر رہے،ان کے دربار نشانے پر آئے تو ہمارے جلوس اور بارگاہیں،اہل سنت بھی مظلوم اور اہل تشیع تو پہلے سے مظلوم ،ان کا آپس میں ملنا فطرت کا تقاضا تھا جو پورا ہوا،حالات انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئے،ایک دوسرے کے پاس آنے جانے سے سمجھنے اور پرکھنے کا بھرپور موقعہ ملا،اس اتحاد کا خوبصور ت منظر ہمیں اس وقت نظر آیا جب امسال عاشورا پر راولپنڈی کے سانحہ کے بعد تمام تکفیری قوتیں نہ صرف اکٹھی ہو گئیں بلکہ اہل تشیع کیخلاف بھرپور محاذ آرائی کا اظہار بھی کیا گیا،ایسے میں اہل سنت اتحادی برادران ہی تھے جنہوں نے کھل کر میڈیا پر آ کر ہماری طرفداری کی اور تکفیریوں کو آڑے ہاتھوں لیا،یہ اتحاد کی عملی صور ت نظر آ ئی اگر اہل سنت بھی مسجد منہدم کرنے کے ایشو پرہمارے خلاف ہوتے تو قوم کیلئے بہت بڑے مشکل کھڑی ہو جاتی۔
حالیہ دنوں میں قومی سیاست کے افق پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ان کیساتھ اگرچہ اس سے قبل اہلسنت کی نمائندہ جماعت سنی اتحاد کونسل نہیں تھی مگر اب کی بار یہ تبدیلی آ چکی ہے کہ دیگر بہت سے طبقات کے علاوہ سنی اتحاد کونسل بھی طاہرالقادری کے ساتھ کھڑے ہیں،مجلس وحدت مسلمین نے بھی موجودہ سعودی شاہوں کی نمائندہ حکومت جس نے دھاندلی سے اقتدار سنبھالا ہے اور اہل تشیع کیلئے گذشتہ چھ سال سے (پنجاب) عذاب کی صورت موجود ہے اس سے چھٹکارا پانا اور معتدل قوتوں کا زمام حکومت سنبھالنا از حد ضروری ہے،اگر بحرین میں شیعہ نسل کشی کا معاہدہ کرنے والے،شام اور عراق طالبان کے جتھے بھیجنے والے یہ حکمران جنہیں الیکشن اور اس سے پہلے طالبان کی عملی مدد حاصل رہی تھی ملک پر مسلط رہے تو ملک کا بیڑا غرق کرنے کیساتھ ساتھ ملت تشیع کو بھی شدید نقصانات پہنچا ئے جائیں گے ایسا نہ ہو کہ پانی پلوں سے گذر جائے اور ہم منہ ہی دیکھتے رہ جائیں،جن لوگوں کی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ان کا ایک گھنٹہ بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا ہمیں گوارا نہیں ہونا چاہیئے کجا یہ کہ قیادت کی طرف سے پانچ سال کی بات کی جا رہی ہے۔ مجلس وحدت نے اپنی شرائط پر اس کیمپ میں اپنا وزن ڈالا ہے تو اس سے اچھی حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے،جس طرح آج ہماری قومی جماعت سیاسی افق پر نمایاں نظر آ رہی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا،میرا خیال ہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے قوم کو سیاسی میدان میں بھی نمایاں مقام دلوانے کیلئے ان تھک کوششیں کی ہیں اور تمام خطرات کو مول لیکر میدان میں موجود ہیں۔۔۔!