Uncategorized

قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کو ہم سے بچھڑے 35 سال بیت گئے

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبررساں ادارہ )آج قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفریہ حسین رحمۃ اللہ کی 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، علامہ مفتی جعفر حسین جنکی ولادت 1332 ھجری 1914ء گوجرانوالہ، پنجاب، انڈیا میں جبکہ 29 اگست 1980ء گوجرانوالہ، پنجاب، پاکستان میں آپ کا انتقال ہوا، علامہ مفتی جعفر حسین نے اپنی پوری زند گی ملت جعفریہ کے لئے صرف کی جبکہ عمر کے آخری میں پاکستان کے بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے خلاف عظم الشان تحریک چلائی اور ملت جعفریہ کو نافذ کئے گئے نام نہاد زکوۃ و عشر آرڈینس سے آزاد کروایا، اس عظیم تحریک نے تنظیم طور پر ملت جعفریہ کے حقوق کے لئے منعظم کیا اور اس وقت کے علماء اور دیگر قومی شخصیات نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی اور مفتی جعفریہ حسین کا قائد ملت جعفریہ منتخب کیا۔

مفتی جعفر حسین گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد کا نام حکیم چراغ الدین تھا۔ آپ کا خاندان اس علاقے میں شرافت و نیک نامی میں اپنی مثال آپ تھا۔ آپ کے چچا حکیم شہاب الدین نہ صرف ایک مشہور حکیم بلکہ تاریخ، ادب، شاعری پر گہری نظر رکھنے والے تھے۔ آپ کا گھر علاقے کا معروف حلقہ ادب شمار ہوتا تھا۔ آپ پانچ بہن بھائی تھے۔ علامہ مفتی جعفر حسین نے اپنی ابتدائی تعلیم چچا شہاب الدین کی زیر سرپرستی حاصل کی۔ چچا نے آپ کو یونانی حکمت کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے ادب سے بھی روشناس کروایا۔ آپ نے بچپن سے ہی قرآن مجید، فقہ کے مسائل، فارسی ادب اور حکمت و طب کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد کے چچا نے مقامی جامعہ مسجد میں تعلیم کے لئے بھیجا۔ جہاں اہلسنت علماء مولانا چراغ علی، قاضی عبدالرحیم، مولانا محمد اسماعیل سلفی بھی تھے۔ جن سے سے مفتی جعفر نے فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انکی ذہانت اور قابلیت کے جوہر کھل کر سامنے آنے لگے۔ آپ کی ذہانت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے قافیہ کو بچپن میں ہی 27 دنوں میں پڑھا۔ قافیہ گرامر کی ایک ایسی کتاب ہے، جس کی 350 سے زیادہ شرح لکھی جا چکی ہے، اور عمومی طور پر اس کتاب کو ختم کرنے کے لئے طلباء کو کئی مہینے درکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے عربی ادب، صرف و نحو، گلستان، بوستان سعدی، اخلاق محسنی، اخلاق جلالی کے ساتھ ساتھ منطق میں قلبی، فلسفہ میں ہدیہ سعدیہ اور ادب میں مقامات، مریدی تک تمام کتب صرف چودہ سال کی عمر میں پڑھ لیں تھیں۔

جب صدر ضیاءالحق نے اسلامک کونسل کا بھی اعلان کیا تو ان حالات میں مفتی جعفر حسین نے حکومتی رویے کے خلاف ایک اجتماعی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کچھ لوگوں نے ساتھ دیا اور شیعہ کانسٹی ٹیوشن کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے 12 اور 13 اپریل کو ملکر ملاقات کی۔ جس میں چار مراحل ہوئے۔ جنکی قیادت مفتی جعفر حسین نے کی۔ جس کا مدعا یہ تھا کہ جعفریہ فقہ کو شیعہ مسلک کے لئے انکے تمام معاملات میں نفاذ کی یقین دہانی کروانا تھا۔ ان مطالبات میں عزاداری کی آزادی، زیارات کے جلوسوں کے لئے حکومت سے سہولتوں کا مطالبہ، شیعہ علماء کو شریعت کورٹ میں عہدہ دار ہونے، تعلیمی میدان میں فقہ جعفریہ کی ترجمانی اور فقہ جعفریہ کے علماء کو ریڈیو اور ٹیلی ویثرن پر آنے کی آزادی، جیسے مطالبات شامل تھے۔ ایران سے بھی علماء جعفریہ کو دعوت دینے کا اعلان ہوا۔ اس موقع پر مفتی جعفر حسین کو ملک بھر میں فقہ جعفریہ کے راہنما کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

مفتی جعفر حسین نے اپنی تقریروں میں اپنی ملت کی ان تمام مانگوں کو پورا کرنے کے لئے حکومت پر زور دیا، لیکن تمام فرقوں کی امیدوں کے خلاف صدر نے اعلان کیا کہ ایک ملک میں دو اقسام کے قوانین کا نفاذ ممکن نہیں ہے، اور جمہور کی بناء پر فقہ خنفیہ ہی ملک میں نفاذ ہوگا۔ صدر کے اس سخت بیان پر فقہ جعفریہ میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ یہ بیان پاکستان کی تین کروڑ شیعہ برادری کے خلاف تھا، لہذا ملت جعفریہ کے لئے اپنے حقوق کی خاطر اپنے وجود کا اظہار ضروری تھا۔ 4 جولائی 1980ء کو آیت اللہ موسٰی الصدر کی برسی کے موقع پر ایک اجتماع ہوا۔ جس کو مفتی جعفر حسین کی اجازت سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام دیا گیا۔ مفتی جعفر حسین علماء کونسل سے 30 اپریل کو ہی استعفٰی دے چکے تھے۔ مفتی جعفر حسین ہنگامی بنیادوں پر پورے ملک کے دورے کر رہے تھے اور تمام ملت انکو بطور لیڈر قبول کر رہی تھی۔ ہر کسی کی زبان پر ایک نعرہ تھا۔ ایک قائد، ایک ہی رہبر، مفتی جعفر، مفتی جعفر۔ جب حکومت وقت کو اس جذبے کی شدت کا اندازہ ہوا۔ تو انھوں نے اسلام آباد میں ہونے والے اس پروگرام کو روکنے کا فیصلہ کیا اور سخت سے سخت کارروائی کا اعلان کیا۔ پورے وفاق کو سیل کر دیا گیا اور ساتھ ہی یہ افواہ بھی اُڑائی گئی، کہ پروگرام ہو ہی نہیں رہا ہے۔ بعض جگہوں پر یہ افواہ اڑائی گئی کہ حکومت تمام مانگیں پوری کرنے کو تیار ہے، جس کے لئے پروگرام کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان سب کے باوجود ایک بڑا اجتماع ہاکی گراؤنڈ کے قریب جمع ہوا۔ گلی محلوں کی بجائے لوگ دارالخلافہ میں آکھڑے ہوئے۔ مفتی جعفر بھی وہاں ان کی قیادت کے لئے موجود تھے۔ آپ نے 2 جولائی کو صدر کی دعوت پر ان سے ملاقات کرنے گئے، جو کہ دو گھنٹے جاری رہی۔

اسی کی دہائی میں جب ضیاء الحق نے اس اجتماع کو لیاقت باغ میں منتقل کرنے کی تجویز دی، جسے آپ نے رد کر دیا، اور اجتماع جاری رہا۔ جس میں جوش و خروش والی تقریریں ہوتی رہیں۔ اس کے ساتھ ہی مفتی جعفر حسین نے اس اجتماع کے کارک
نوں کو پرامن رہنے کی تاکید کی۔ اس کے بعد پانچ علماء کی ایک کمیٹی نے وزارت مذہبی امور کے وزیر محمد ہارون سے ملاقات کی، جنہوں نے تمام تر مطالبات صدر کو پہنچانے کی یقین دہانی کروائی۔ جس پر پورا ایک دن انتظار کیا گیا، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی نتیجہ خیز جواب نہ آیا۔ اس پر قائد کے حکم پر ملت جعفریہ کے اس اجتماع نے مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگ حکومت کے خلاف نعرے لگاتے، سیکرٹریٹ کی جانب چلے جا رہے تھے۔ اس پر پولیس اور انتظامیہ نے ان نہتے لوگوں پر شدید لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن وہ قوم کہ جس کا رشتہ ہی آنسوؤں سے ہے، نہیں گھبرائی اور ثابت قدم رہ کر مارچ کو جاری رکھا۔ ساتھ ہی مفتی جعفر حسین نے پرامن رہنے کا حکم بھی دے رکھا تھا۔ اس مارچ کو اس کی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی شدید قوت کے ساتھ روکا گیا۔ جب پانی سر سے گذر گیا، تو حکومت نے مذاکرات کی ایک کمیٹی بنائی، چنانچہ اگلے دن 6 جولائی 1980ء کو صدر پاکستان کی دعوت پر مفتی جعفر حسین پانچ لوگوں کا وفد لیکر صدر سے ملاقات کرنے گئے۔ جو کہ بارہ گھنٹے جاری رہی۔ ملت جعفریہ کی اس مذاکراتی کمیٹی میں مولانا گلاب شاہ، مولانا سید صفدر حسین نجفی، سید فدا حسین نقوی، سید صابر حسین نقوی شامل تھے۔ جبکہ سرکاری وفد میں صدر پاکستان، وزیر مذہبی امور اور زکواۃ کونسل کے راہنما شامل تھے۔

اس کمیٹی کے تمام مطالبات سننے کے بعد صدر پاکستان نے یہ یقین دہانی کروائی کہ پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو آزادی حاصل ہوگی، اور کوئی ایک فقہ کسی دوسرے فقہ کے پیروکاروں پر نافذ نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہے، جو کہ فقہ جعفریہ کی تردید کرتا ہو، بھی تو اس میں ترمیم کی جائے گی اور آئندہ قانون سازی میں بھی اس کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس کے بعد مفتی جعفر حسین نے حکومت کو اجتماع کے منتشر کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ اس دوران اجتماع آپ کا منتظر رہا۔ جہاں مختلف علماء تقریریں کرتے رہے۔ جس سے اجتماع کو پرامن رکھا گیا۔ شام کے قریب ان کے عظیم راہنما مفتی جعفر حسین ظاہر ہوئے، جس پر ایک بار پھر ایک ہی قائد ایک ہی رہبر مفتی جعفر، مفتی جعفر کے نعروں سے فضا گونجتی رہی۔ آپ نے سب کو خاموش کروایا اور قرآن کی سورۃ فتح کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ بھائیوں جس نیک مقصد کے لئے آپ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں، اس کو اللہ کے فضل و کرم اور محمد (ع) و آل محمد (ص) کی عطا سے حاصل کر لیا گیا ہے۔ آپ نے اجتماع کو بتایا کہ زکواۃ کے قوانین فقہ جعفریہ کے مطابق لاگو ہونگے، اور ساتھ حکم دیا کہ اب پرامن طریقے سے منتشر ہو کر گھروں کی جانب چلے جاؤ اور باقی لوگوں کو اس خوشی کی خبر سے آگاہ کرو۔

اس معاملے کے بعد مفتی جعفر حسین نے تمام ملک کے دورے کرکے ملت کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کیں، اور فقہ جعفریہ کے مطابق زکواۃ کمیٹیاں تشکیل دیں، لیکن وہ اس طرح کام نہ کرسکیں، جس طرح مفتی جعفر حسین چاہتے تھے۔ ان کے چار سالہ دور قیادت میں اہم کام جو انجام پائے وہ یہ ہیں۔

۱۔ فقہ جعفریہ کا سرکاری نفاذ
۲۔ شیعہ زکوۃ کمیٹیوں کا قیام
۳۔ صحافت میں فقہ کی سرگرمی، اخباروں اور رسالوں کا اجراء
۴۔ شیعہ سکولوں کے لئے نصاب کی فراہمی
۵۔ عزاداری کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنا
۶۔ شیعہ وقف بورڈ کا قیام

علامہ مرحوم کی ذات گرامی پاکستان کے شیعہ عوام کی شناختی علامت بن چکی تھی۔ آپ کی اولین جدوجہد اور ملت کی بقاء اور تحفظ کے لئے خدمات نے جہاں ملت کو اپنے پامال ہوتے ہوئے حقوق کے حصول کی طرف متوجہ کیا، وہاں باہمی اتحاد کی نعمت عطا کرتے ہوئے ایک لڑی میں پرو دیا۔ آپ کی عمر 66 برس ہوچکی تھی۔ آخری ایام میں آپ 25 دن تک ہسپتال میں رہے۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ آپ کو غسل مولانا عبدالحفیظ جعفر اور مولانا سید نجم الحسن دیں گے، اور آپ کو گامے شاہ میں دفن کیا جائے۔ 28 اگست کی رات آپ کی طبیعت نہایت خراب ہوگئی، رات بھر سو نہ سکے اور ذکر الہی میں مشغول رہے، اور 29 اگست کی صبح صادق اس دار فانی سے کوچ کیا۔ صبح کے نو بجے یہ افسوسناک خبر پورے ملک میں پہنچ چکی تھی، اور تمام لوگ گامے شاہ میں جمع ہونے لگے تھے۔ آپ کی پہلی نماز جنازہ امامیہ مسجد خیالی دروازہ گوجرانوالہ میں ادا کی گئی، جس کی امامت مولانا صفدر حسین نجفی نے کی۔ آپ کے آخری دیدار کے لئے آپ کی میت کو کچھ دیر آپ کے گھر میں رکھا گیا، پھر لاہور روانہ کر دیا گیا۔ اس وقت کے گورنر جنرل ایف ایس لودھی اور دوسرے اہم حکومتی حکام گامے شاہ لاہور میں موجود تھے، جب آپ کا جنازہ لاہور میں پہنچا، تو دوبارہ نماز جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ دوسری بار نماز جنازہ کی امامت مولانا محمد یار شاہ نے کروائی اور ساتھ مصائب امام حسین (ع) بیان فرمائے۔ لوگوں کا جذبات پر قابو نہ رہا، لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے اور اپنے عظیم راہنما کو آنسوؤں کے نذرانے دیتے ہوئے رخصت کر رہے تھے۔ آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق گامے شاہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کی قبر سادہ سی مگر پکی ہے۔ جس پر سنگ مرمر کا کتبہ لگا ہے۔ اپنی ملت کے حقوق کی خاطر سینہ سپر ہو کر لڑنے والا یہ سپاہی یہاں ابدی نیند سو رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button