یوم القدس، 37 سالہ زندہ روایت
تحریر: توقیر ساجد
ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد حضرت امام خمینی نے مستضعفین کی مدد ونصرت کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر اقدام کیا اور صہیونی حکومت کے توسط سے فلسطین اور بیت المقدس پرقبضے کے خلاف، مسلمانوں میں اتحاد کے لئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کا نام دیا۔ 1979 اگست میں امام خمینی ؒ نے ماہ رمضان المبارک میں یہ اہم پیغام دیا کہ میں عرصہ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آرہا ہوں۔ میں تمام مسلمانان عالم اور اسلامی حکومتوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کی نکیل ہاتھ میں رکھنے کے لئے متحد ہوجائیں اور تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں،مسلمانوں میں عالمی سطح پر اتحاد کا اعلان کریں۔ خداوند عالم سے کفار پر مسلمانوں کی کامیابی کا خواہاں ہوں۔
حضرت امام خمینی کا یہ اہم اور تاریخی اقدام، مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور صہیونزم کے خطرے کی جانب اسلامی حکومتوں اور مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے کے مقصد سے تھا اور دوسرے، بعض عرب حکومتوں کی خیانت کے مقابلے میں اسلامی غیرت اور بصیرت کو اجاگر کرنے کے لئے تھا۔ حقیقت میں بانی انقلاب اسلامی کی جانب سے یوم القدس کے اعلان، اور تمام اسلامی ملکوں میں اسے اہمیت دیئے جانے کے سبب فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کے ایک اہم مسئلے میں تبدیل ہوگیا ۔ حضرت امام خمینی ؒ نے فرمایا قدس کا دن ایک عالمی دن ہے،ایسا دن نہیں جو صرف قدس سے مخصوص ہو، مستکبرین سے مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعفین کو مسلح ہونا چاہئے تاکہ استکبار کی ناک زمین پر رگڑ دیں۔ یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہو اور مستکبرین کے مقابلے میں مستضعف قومیں اپنے وجود کا اعلان کریں ۔امام خمینی نے اسی ابتدا سے ہی اسلامی تشخص اور اسرائیل کے ساتھ جہاد کے اعتقادی پہلو کو، فلسطین کے مظلوم عوام کو آمادہ کرنے، اور پوری امت مسلمہ سے فلسطینوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ کارساز روش قرار دیا اور اس کے علاوہ نیشنلسٹ اور غیر اسلامی نظریات کو قدس کی آزادی کے لئے انحراف سے تعبیر کیا۔
امام خمینی کے فرمان پر پاکستان میں فرزندان خمینی امامیہ جوانوں نے لبیک کہتے ہوئے اسے ملک بھر میں منانے کا اعلان کیاپہلے مرحلہ میں لاہور میں حضرت امام خمینی کے فرمان کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے خلاف یوم القدس کے پروگرام ترتیب دینے کیلئے ملک بھر کے تمام ڈویژن کو ہدایات دی گئی، اس سلسلہ میں مسجد شہداء لاہور میں ایک پروگرام بھی تریتب دیا گیا شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے رفیق خاص برادر نثار ترمذہی رقم طراز ہیں کہ لاہور میں پہلا یوم القدس 1980میں منایا گیا تھا۔ مسجد شہدا لاہور سے ریلی نکلی۔اس موقع پر سیمینار بھی منعقد ہوا۔ اسی طرح بزرگوں نے بتایا کہ ایک جلوس مسجد اسلام پورہ سے جناح ہال تک آیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق 1982 میں جناح ہال میں قدس سیمینار منعقد ہوا جس میں دو ایرانی علما بھی شریک تھے ۔ سیمینار کے بعد شرکا جلوس کی صورت میں باہر سڑک پر آ گئے۔ یہاں پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں ایرانی علما بھی زخمی ہوگئے۔ اس وقت آئی ایس او اور آئی او مل کر اسے منعقد کرتے تھے۔ مگر اسے تحریک آزادی قدس اور تحریک وحدت اسلامی نام سے ریلی اور کانفرنس منعقد ہوتی تھیں۔ 1986 میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ او آئی ایس او کے نام سے منعقد ہونے لگے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب تک شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی رہے قدس کا جلوس ان کی زیر نگرانی میں ہوتا رہا۔ جس میں شہادت سے متصل رمضان مبارک میں قدس کا جلوس بھی شامل ہے۔ آپ پانچ شوال کو شہید ہوئے۔بحرحال آئی ایس او ہمیشہ اس کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہے۔ نامسائد حالات، اپنوں کی مخالفت، حکومتی رکاوٹیں، روٹ کی تبدیلی، مگر جواں ہمتی کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھا رہی ہے۔
پہلی ریلی میں شریک برادر افسر رضا خان کہتے ہیں لاہور کے بعد ملک بھر میں یوم القدس کی ریلیوں کے انعقااد میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ایک اہم کردار تھا آئی ایس او کے کارکنا ن جو ملک بھر کے اہم ڈویژن میں فعال تھے یوم القدس کے جلسے جلوس منعقد کرنے کیلئے فعال ہوئے اور 2سال کے عرصہ میں کراچی لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں جلوسوں کے انعقاد کو یقینی بنایا1982میں لاہور میں جناح ہال میں قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر کی قیادت میں ایک جلسہ منعقد ہوا، مولانا صفدر نجفی، فلسطینی طلبہ تنظیم کے صدر منتظر شافعی مولانا مرتضٰی حسین صدر الفاضل، مرکزی صدر آئی ایس او ملک اعجاز حسین سمیت دیگر علماء نے شرکت کی۔ تاریخ کے اوراق کے مطابق جب امام خمینی نے یوم القدس کا اعلان کیا، تو دنیا بھر میں یہ خبر پھیلی تو پاکستان میں آئی ایس او نے لبیک کہا اور عاشق امام خمینی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس کی قیادت کی، پہلا یوم القدس کا جلوس ٹاؤن ہال لاہور تک نکالا گیا۔ یہ ضیاء الحق کے دور حکومت کہ جب قدس ریلی پر بدترین لاٹھی چارج کیا گیا، جس میں آئی ایس او کے کارکنان سمیت ایرانی علماء بھی شدید زخمی ہوئے تھے۔ 37 سال قبل جب ریلی کا آغاز ہوا تو آئی ایس او کے ہمراہ امامیہ آرگنائزیشن اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جس کے سربراہ مفتی جعفر تھے، اوائل میں شیعہ
تنظیمیں ہی پاکستان میں ریلی میں شریک ہوتے تھے، بعدازاں جماعت اسلامی اور دیگر تنطیموں کے رہنماء ریلی و کانفرنسس میں شریک ہوئے۔ ریلی میں ہزاروں افراد شریک ہوتے تھے، کچھ عرصہ تک لاہور میں ریلی کا روٹ اسلام پورہ سے کربلا گامے شاہ تک رہا، جسمیں مفتی جعفر حسین کے بعد شہید علامہ عارف الحسینی نے لاہور میں القدس ریلی کی قیادت کی۔ تاہم کچھ عرصہ سے اسلام پورہ سے اسمبلی ہال تک القدس ریلی کا انقعاد کیا جاتا ہے۔
ضیاء الحق کا آمرانہ دور ہو یا جمہوری حکومتوں کا زمانہ یوم القدس کا انقعقاد بھرپور انداز میں کیا گیا، 37 سالوں میں ایک بھی ایسا سال نہ تھا کہ پابندیوں کے باجود ریلیوں کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ حکومتوں کی کوشش یہ رہی کہ یوم القدس کے جلوس کو روکا جائے، لیکن پاکستان کے عوام نے استعمار دشمنی کو ہرگز نہیں چھوڑا، آئی ایس او کے کارکنان نے لاٹھی چارج، مشرف دور میں گرفتاریوں کے باجود مظلوم فلسطینوں کی حمایت اور اسرائیل دشمنی کو ہرگز نہیں چھوڑا۔ آج بھی آئی ایس او کے جوانان اس جوش و جذبہ کے تحت کے ساتھ مظلومین کی حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ اپنوں نے القدس ریلی کو پاکستان کے اہم مقامات پر دو سے تین حصوں میں تقسیم کر دیا، ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ایس او کے کارکنا ن کے ساتھ مل کر مظلوموں کیلئے امید کی کرن ثابت ہوں۔