آئی ایس او پاکستان کے 41ویں یوم تاسیس کے موقعہ پر خصوصی تحریر
وہ کون تھا جس نے لادینیت کے مقابل دین داری اور باطل پرستی کے مقابل حق پرستی کا علم بلند کیا تھا۔۔۔، وہ کون تھا جس نے سوشلزم کی سرخ آندھیوں کے سامنے اسلام حقیقی کی نسیم بہار کو رونق بخشی تھی۔۔۔، وہ کون تھا جس نے نوجوانوں کو بے راہ روی سے نکال کر تعلیم و تربیت کی راہ دکھائی تھی۔۔۔، وہ کون تھا جس نے نوجوانوں کو جامد سوچوں اور پست افکار کے مقابل کربلا کی بلند فکر سے روشناس کر دیا تھا۔۔۔، وہ کون تھا جس نے فلمی ہیروز کو آئیڈیل سمجھنے والے ملک و ملت کا مستقبل نوجوانوں کو علماء حق کی پیروی اور ان سے محبت کے گُر سکھائے تھے۔۔، وہ کون تھا جس نے متفرق، منقسم اور بکھرے ہوئے قومی قائدین کو متحد، منظم اور یکجان ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔۔۔، وہ کون تھا جس نے دانہ دانہ ہو کر نابود ہو جانے کی بجائے تسبیح بن جانے کی راہ اور تدبیر نکالی تھی۔۔، وہ کون تھا جس نے کراچی سے لیکر پاراچنار اور کوئٹہ سے لیکر سیاچن کے نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔۔، ایک مقصد، ایک ہدف، ایک رستہ، ایک شعار، ایک نصب العین، ایک دستور، ایک اصول، ایک جذبہ، ایک فکر اور ایک ضابطے کے پابند تسبیح کے یہ دانے پاکستان میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نام سے جانے اور پہچانے گئے۔ وہ سب ایک جیسے (iso) تھے، لاہور کے ایک تعلیمی ادارہ سے آغاز سفر کر کے کراچی کے ساحلوں سے لیکر پاراچنار کی سرحدوں تک اور بلوچستان کے صحراؤں سے لیکر سیاچن کی بلند ترین چوٹیوں تک وہ ایک تھے اور ایک ہیں۔
22 مئی 1972ء جب ارضِ وطن پاکستان کے شہر لاہور میں مکتبِ اہلبیت (ع) کے پروردہ کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء نے چمن پاک میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مقدس نام سے ایک ایسا پودا لگایا گیا جس کی خوشبو سے گلشن وطن مہک اُٹھا، اس کی مہکتی نسیم بہار جہاں بھی گئی لوگوں کو اپنے سحر میں اسیر کر لیا، لاہور سے چلنے والی اس بہار صبح نو کے چرچے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ملک کے گوش و کنار میں سنائی دینے لگے، صرف تین برس کے عرصہ میں اس کے باغبانوں نے ملک بھر میں اس کی آبیاری کی۔ اس نوخیز پودے کو علم، عمل، تقویٰ، خلوص، جذبہ، عہد، ایقان، اتحاد، یکجہتی، اُصول، ضابطے، روایات، معرفت اور نظریہ ولایت سے سیراب کر دیا گیا۔ اس نحیف، نرم و نازک اور کمزور پودے کو زمانے کی بادِ مسموم سے بچانے اور توانا و مضبوط، طاقتور و قوی، سایہ دار و جاندار بنانے اور اس نوخیز پودے کو ٹوٹنے، جھکنے، بکھرنے سے بچانے کیلئے یوں تو ان اکتالیس برسوں میں ہزاروں نوجوانوں، بھائی بہنوں نے اس کی بنیادوں کو اپنے خون پسینے سے سینچا اور اپنی طاقت و قوت سے بڑھ کر اپنا دم اور زور لگایا مگر اس کی بنیادوں کو اپنے خون سے سینچنے والوں میں سب سے بڑی قربانی تنظیم کے بانی اور ہم سب کی سب سے پسندیدہ شخصیت، سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقوی (رہ) نے دی، قربانیوں کے پیش کارواں میں راجہ اقبال حسین، تنصیر حیدر، ڈاکٹر قیصر عباس سیال، اعجاز حسین رسول نگری کے نام بھی روشن و تابندہ ہیں۔ جبکہ علماء کرام میں مرحوم آغا علی الموسوی، قبلہ مرتضیٰ حسین صدرالافاضل، قبلہ مولانا صادق نجفی، قبلہ علامہ صفدر حسین نجفی، اور کچھ دیگر علماء کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اکتالیس برس ہونے کو آئے ہیں الحمدللہ اب یہ خوبصورت، مہکتا مضبوط تناور، شجر سایہ دار کی صورت میں ہر سو نظر آتا ہے۔ اپنے کردار، عمل، نظریہ اور قوت کے بل بوتے پر آج پوری قوم اس تنظیم سے ایسے ہی مستفید ہو رہی ہے جس طرح کسی تناور، مضبوط اور گھنے درخت کی چھاؤں سے تپتی دھوپ میں مستفید ہوتی ہے۔ اب یہ ایک ایسا کارواں بن چکا ہے جس میں شریک ہر ایک مسافر نے اسے منزل پر پہنچانے کے عہد کو نبھانے کی ٹھان لی ہے۔ گذشتہ اکتالیس برس گواہ ہیں کہ اس ملت پر جب بھی کڑا وقت آیا ہے، تو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے اور ہمیشہ اس کے مخلص اور دین دار، منظم کارکنان نے خود کو سب سے آگے رکھا ہے۔ ہر محاذ پر فرنٹ لائن کی پوزیشن اختیار کی ہے اور ہر مشکل کا مقابلہ سینہ سپر ہو کر کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی تاریخی و چیدہ چیدہ خدمات، کارہائے نمایاں، ملت پر اس کے مثبت و دیرپا اثرات کو اگر انتہائی جامع اور مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو 22 مئی 1972ء کو یہ کارروان باقاعدہ طور پر قائم ہو گیا تھا اور اپنی تاسیس کے ساتھ ہی اس کے ذمہ داران نے اس کی وسعت اور توسیع کیلئے کوششیں شروع کر دی تھیں، اس سے قبل مختلف ناموں سے جو کارروان لاہور کے کالجز کی سطح پر کام کر رہے تھے سب اس میں ضم ہو گئے تھے۔ یہ شیعہ طلباء کا پہلا ملک گیر پلیٹ فارم تھا اس سے پہلے قومی سطح پر بہت محدود لوگ شیعہ مطالبات کمیٹی کے نام سے ایک تحریک چلا رہے تھے جن کی سوچ محدود تھی اور ان کے پاس قوم کی ترقی و تعمیر کا کوئی واضح ہدف و پروگرام نہیں تھا۔
تنظیم نے روز بروز پیشرفت کی اور 1974ء میں اس تنظیم سے فارغ التحصیل ہونے والے برادران کی کوششوں سے ہی سابقین کا ایک پلیٹ فارم امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کا قیام ممکن ہوا، 1978ء میں انقلاب سے قبل انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینی (رہ) کی حمایت میں لاہور کی مال روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کا شرف اسی کارروان کو حاصل ہوا اور فرانس میں جلا وطنی کے دوران ان سے یکجہتی کا اظہار و حمایتی خط بھی اس بات کی علامت تھا کہ اس کارروان کا ہر فرد
ولایت فقیہ و ولی فقیہ امام خمینی (رہ) کی بلند معرفت رکھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں وہ لوگ آج کے پیروان ولایت کے دعویداروں سے کہیں زیادہ آگاہ، متعہد اور مخلص تھے، ان لوگوں نے انقلاب کے ثمرات کو دیکھا تھا اور نہ چکھا تھا آج کی طرح ان کے پاس وسائل بھی نہیں ہوتے تھے ان کے پاس بسیجیوں جیسی آئیڈیل فورس بھی نہیں تھی جن کی مثال دیکر نوجوانوں کو متوجہ کیا جاتا، جو کچھ بھی تھے یہ خود تھے اور ان کی سرپرستی کرنے والے گنتی کے چند علماء تھے جو ان نوجوانوں کو دینی تربیت اور فکری غذا فراہم کرتے تھے۔
ہماری قومی اجتماعی زندگی کا نیا دور اس وقت شروع ہوا جب جنرل ضیاءالحق کی آمریت کا 11سالہ دور 1977ء میں ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوا، جنرل ضیاء نے ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم بندی کے لئے کئی ایک اقدامات کئے اور اس کے دور میں ہی کئی مقامات اور جگہوں پر لڑائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ زکوٰۃ کے مسئلہ پر احتجاج اور ملک میں فقہ حنفی کے نفاذ کی سازش اور خطرات کو بھانپتے ہوئے اس کاروان کے راہیوں نے قومی سطح پر TNFJ کی صورت میں 1979ء میں قومی سطح پر پلیٹ فارم کی تشکیل میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا اس کردار کو تاریخ میں کوئی مٹا نہیں سکتا، مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں ضیائی مارشل لاء کے خلاف 1980ء میں اسلام آباد کے عظیم قومی اجتماع کا انتظام و انصرام اور کفن پوش دستوں کی تشکیل اور پروگرام کو کامیاب کرنا اسی تنظیم کا کام تھا۔
مفتی صاحب کی رحلت کے بعد 10 فروری 1984ء کو بھکر کنونشن میں انقلابی قیادت علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی بھرپور اور بلا مشروط حمایت، شہید کی قیادت میں ساڑھے چار برس تک ملک بھر میں قومی پلیٹ فارم کو متحرک کرنا اور جگہ جگہ پر شہید کے استقبال، قرآن و سنت کانفرنسز ،لاہور، فیصل آباد، ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان، 1979ء میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں آنے والے عظیم اسلامی انقلاب کی مکمل حمایت، انقلاب کے تعارف کیلئے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پروگرام۔ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے خلاف تظاہرات اور ایرانی بھائیوں کی اخلاقی و عملی مدد، امریکہ کی عالم اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت اور سازشوں کے خلاف سینہ سپر ہونا اور پاکستان کی سڑکوں پر امریکہ کے پرچم کو جلانے کی روایت جب کوئی بھی اس کام پر آمادہ نہ ہوتا تھا بلکہ شرعی دلیلیں دیکر اس سے منع کیا جاتا تھا اس تنظیم کے کارکنان کا شیوہ تھا یہ لوگ ہمیشہ اپنے دشمن کو شناخت کر کے اس کے خلاف برسر پیکار رہتے تھے، بیت المقدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے خلاف عالمی یوم القدس اور 16 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ منانے کا رواج و روایت بھی اسی کارروان نے شروع کی تھی جو آج تک جاری و ساری ہے۔
علماء کرام کی توقیر بڑھانے کی منصوبہ بندی ہو یا قومی سطح پر انہیں فعال کرنے کی بات، بامقصد عزاداری کا فروغ، نماز دوران جلوس کے پروگرام، نوجوانوں کی تعلیم و تربیت، اصلاح نفس، بلندی کردار، بیداری ملت کیلئے تعلیمی ورکشاپس کا انعقاد، تربیتی نشستوں کا اہتمام، اخلاقی محافل کے مواقع، دعا و مناجات کے کلچر کا فروغ، مقصد کربلا سے آگاہی کی مہم اور کربلا شناسی کے مقابلہ جات، نوجوانوں کو متحرک و فعال رکھنے کیلئے شعبہ اسکاؤٹنگ کا قیام اور اسکاؤٹ کیمپس کا انعقاد، تعلیمی اداروں میں طلباء کے مسائل کے حل کیلئے فعالیت، رہنمائے تعلیمی کتابچہ، تعلیمی کنونشنز کے ذریعہ ماہرین تعلیم سے تعلیمی رہنمائی، کیرئیر گائیڈنس، متحدہ طلباء محاذ کے ذریعہ دیگر طلباء تنظیموں سے بھرپور تعلقات اور طلباء مسائل کے حل کیلئے متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل میں کردار ہر ایک پر آشکار ہے۔
قائد محبوب علامہ عارف الحسینی کی المناک اور عظیم شہادت کے بعد شہید کے کیس کی مکمل پیروی اور قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے اسلام آباد سیکرٹریٹ کا گھیراؤ، اجتماعات، مظاہرات، شہید کے افکار و کردار کی امانت کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے فریضہ کی ادائیگی، ملی و قومی اجتماعات کو کامیاب بنانے میں بھرپور کردار، فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت کے خلاف ملت میں شعور کی بیداری اور علاقائی سطوح پر مومنین کی بھرپور رہنمائی و مدد، تعلیمی میدان میں ہزاروں طلباء کو قرض حسنہ کی صورت میں اسکالر شپس کا اجراء اورا علٰی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کیلئے داخلہ فیسز کی ادائیگی اور مالی معاونت شعبہ طالبات کی صورت میں خواتین اور طالبات میں پیغام کربلا کی تشہیر اور زینبی کردار کی حامل بہنوں کی تربیت کیلئے پلیٹ فارم، علماء کی سرپرستی و رہنمائی میں ایک مضبوط، قوی اور بااثر و باشرف ملت کی تشکیل کیلئے ہمہ تن کوششیں اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، تعلیمی اداروں میں نظریہ ولایت فقیہہ پر کاربند و عمل پیرا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے گروہوں کی تشکیل کا مسئلہ، ارض پاکستان کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کا معاملہ ہو یا وطن کی سالمیت، استحکام اور استقلال کیلئے اپنے مقدس لہو کو پیش کرنے کا مطالبہ امامیہ نوجوان ہر میدان میں بلاخوف، بلاجھجھک اور بغیر ڈر کے سینہ سپر ہوئے نظر آئے۔
کشمیر میں آنے والے زلزلہ اور ملک میں آنے والے بدترین سیلاب میں بھی اس کارروان نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کر خدمات سرانجام دیں اور کئی ایک مثالیں قائم کیں، یہ ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔۔۔اس کے علاوہ اُسرائے ملت کی معاونت، شہدائے ملت کے خانوادوں کی کفالت و امداد، دیگر قومی اداروں کی معاونت، مشکل و کڑے حالات می
ں ملت کی نمائندگی کرنے کا سہرا، یہ سب آئی ایس او پاکستان کی خدمات و تاریخ جو ملت تشیع پاکستان کی 41 سالہ تاریخ کہی جا سکتی ہے کا خلاصہ بلکہ صرف عنوانات ہیں۔ اگر ان عنوانات کے ذیل میں ہم تفاصیل کا ذکر کرنا شروع کر دیں تو کتابیں شائع کرنا پڑیں گی۔ اس کالم کے ذریعہ ہم صرف اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ تمام پروگرام، اہم ایشوز، برنامے اور فعالیت گذشتہ 41 برس سے جاری ہیں زمانے کی تبدیلیوں اور سائنس کی پیشرفت و ترقی نیز نوجوان نسل کی فکری و روحانی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید وسائل اور رسل و رسائل سے استفادہ کرتے ہوئے یہ کاروان الٰہی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
قارئین محترم ! آپ آگاہ ہیں کہ کہ اس قدر طویل خدمات کسی ایک فرد اور گروہ کے بس کی بات نہیں، یہ ممکن نہیں ہے کہ ان سب برادران، بزرگان، خواہران، دوست احباب، سینئرز، جونیئرز، اسکاؤٹس، علماء، زعماء، جانباز و مجروحین اور شہداء کی فہرست شائع کی جا سکے جنہوں نے 41 برس کے دوران اس کاروان الٰہی کے پلیٹ فارم سے اپنا خون، پسینہ، ذہن، مال، جائیداد، وقت اور دیگر توانائیاں خرچ کیں ۔۔۔ ہاں۔۔۔ یہ ضرور کہیں گے کہ اک چھوٹے سے یونٹ کے پروگرام سے لے کر مرکزی سطح تک ہونے والے پروگراموں کو کامیاب بنانے میں ان 41 برسوں کے دوران جس جس نے بھی جو خدمت سرانجام دی ہے، جو بھی اس کاروان الٰہی کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا ہے، جس نے بھی اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالا ہے، جو بھی خطرات سے کھیلا ہے، جس نے بھی مشکلات جھیلی ہیں، اس کے خلوص، تقویٰ، ہمت، جدوجہد، کاوش کو سلام، سب سے بڑھ کر ان برادران کی عظمت و سربلندی کو سلام جن کے لہو کی سرخی اس کاروان کو منزل کی طرف گامزن رکھنے میں بنیادی کردار بن گئی، جن کے جسموں پر زخموں کے نشان آج بھی اس بات کی علامت ہیں کہ حق کا سفر قربانیاں مانگتا ہے اور راہیان حق اس روایت کو خندہ پیشانی سے آگے بڑھ کر زندہ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔۔۔اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ کسی معمولی پروگرام سے لے کر مرکزی سطح کے پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے کتنے ورکرز، مخلص، بےلوث خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم گذشتہ 41 برس کے ہر پروگرام کے انعقاد میں حصہ لینے والے ان مخلص، بے لوث، ایثار گر، الٰہی نوجوانوں کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں جو کبھی بھی، کسی بھی مقام اور کسی بھی ٹائم پر اس کارروان کے ہمرکاب ہوئے، ہم سفر ٹھہرے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس تمام عرصہ کے دوران اس ملت پر بڑے کٹھن دور بھی آئے ہیں، بہت مشکل اور کڑے لمحے جب فیصلے کی قوت جواب دے جاتی ہے، جب مایوسیاں گھیر لیتی ہیں، جب ایمان کمزور پڑ جاتے ہیں بلکہ ایمان ڈول جاتے ہیں، جب ملت امتحان یا آزمائش کا سامنا کرتی ہے۔ جب قیادتیں اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔ ایسے ادوار اور مشکل لمحات کو بھی اس کارروانِ الٰہی نے بےحد خوبصورت انداز میں گذارا ہے آج تک کئی ایک تاریخی بحرانوں سے کامیابی سے نکل جانے کے بعد اکثر ہمارے برادران اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس کارروانِ الٰہی پر یقیناً حضرت حجت (عج) کا خاص لطف اور نظر ہے، اسی وجہ سے تمام تر مشکلات، مسائل، مصائب، اور ناگفتہ بہ احوال کے باوجود اس کاررواں کو ” حی علیٰ خیر العمل” کا پرچم لہراتا آگے بڑھتا دیکھا جا سکتا ہے۔ انشاءاللہ ہم آگے بڑھتے رہیں گے اس منزل کی طرف جس کا وعدہ اللہ اور اس کے پاک پیغمبر (ص) نے کیا ہے، زمین کو عدل وانصاف سے بھر دینے کا وعدہ اور ظالمین کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا وعدہ، یہ وعدہ جلد پورا ہو گا اور ہم جو ایک جیسے (i so) ہیں اس وقت بھی حکم خدا کے نافذ کرنے والی ہستی کے ساتھ، ایک ساتھ اور ایک جگہ ہوں گے، کیا خوبصورت اور روحانی و معنوی کیفیات و لمحات ہوں گے، جب ہم شہید قائد اور شہید ڈاکٹر کی معیت میں حضرت حجت (عج) کی بارگاہ میں موجود ہوں گے۔ خداوند کریم! تمام برادران و خواہران کی زحمات، تکالیف اور کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کی منازل سے سرفراز فرمائے، خدا کے ہاں ان کیلئے انعام و اکرام ہے جو اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، ہمیں یوم تاسیس کے دن ان سینئرز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے راستے پر چلنے کا عہد دہرانا ہے اور اس عزم کا اظہار کرنا ہے کہ اس پر خار رہ پر چلتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں گے، اس کے ساتھ ساتھ آج اس تنظیم اور کارروانِ الٰہی کے اکتالیس سالہ سفر کے بعد خدا کے حضور گڑگڑانے اور دستِ دعا بلند کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔