باچا خان یونیورسٹی حملے کے 5 تکفیری سہولت کار گرفتار،آئی ایس پی آر
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق کورہیڈ کوارٹرز پشاور میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں کورکمانڈر پشاور ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم او، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آرنے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران فاٹا اورخیبرپختونخوا میں آپریشن کا جائزہ لیا گیا اورخیبرپختونخوا میں انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن پر غور ہوا، پاک افغان بارڈر مینجمنٹ اور چارسدہ حملےکی تحقیقات میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملےمیں 4 تکفیری دہشت گرد اور 4 سہولت کار شامل تھے جنہیں مار دیا گیا ہے۔تکفیری دہشت گردوں کو افغانستان سے عمر منصور کنٹرول کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد افغانستان سے طور خم کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے، بعد ازاں عام شہری کی حیثیت سے پبلک ٹرانسپورٹ میں طورخم بارڈر پار کیا جہاں سے انہیں پبلک ٹرانسپورٹ سے چارسدہ لایا گیا، عادل اور ریاض نے حملہ آوروں کی رہائش کا انتظام کیا، حملہ آوروں کو 2 مختلف مقامات پر ٹھہرایا گیا جب کہ دہشت گرد رکشے میں یونیورسٹی پہنچے۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ایک دہشت گرد کی شناخت امیر رحمان کے نام سے ہوئی ہے جو جنوبی وزیرستان کا رہنے والا ہے۔ ڈی این اے کے نمونوں سے باقی دہشت گردوں کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ تکفیری دہشت گردوں کے سہولت کاروں نوراللہ ، ضیا اللہ ،ریاض اور عادل کو گرفتار کرلیا گیا ہے جب کہ عادل اور ریاض نے دہشت گردوں کو اپنے گھروں میں رکھا اور نور اللہ نے چارسدہ حملے کے روز حملہ آوروں کو رکشے کے ذریعے یونیورسٹی تک پہنچانے کا کام کیا اور رکشہ حاصل کرکے حملہ آوروں کو باچا خان یونیورسٹی کے قریب کھیتوں میں اتارا۔ عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ سہولت کاروں میں شامل عادل یونیورسٹی میں بطور مزدور کام کر چکا تھا، اسی نے یونیورسٹی کا نقشہ بنایا جسے حملہ آوروں نے استعمال کیا۔ ترجمان نے کہا کہ عادل کی بیوی اور بھانجی اسلحہ پردے میں چھپا کر درہ آدم خیل سے چارسدہ لائیں،جن کی تلاش جاری ہے۔ ریاض کے بیٹے نے بھی دہشت گرد حملے میں تعاون کیا جس پر اسے بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ حملہ آوروں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے دوران میڈیا کے ایک نمائندے سے گفتگو بھی کی جس میں انہوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اُس کال کو ٹریس کرکے ریکارڈ کر لیا گیا تھا. انہوں نے صحافیوں کو دہشت گرد کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سنوائی، جس میں وہ حملے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے.
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں آپریشن انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پرکیے جاتے ہیں جب کہ چارسدہ میں ہی کچھ روز پہلے بھی ایک کارروائی کی کوشش ناکام بنائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سہولت کاروں کے بغیرکوئی حملہ نہیں ہوسکتا، ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول اور مشکوک افراد پر نظر رکھنی چاہئے جب کہ دہشت گردوں کا مقصد خوف پیدا کرنا ہے تاہم انہیں کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ترجمان پاک کا کہنا تھا کہ ہمیں مایوسی کے بجائےمتحد رہنے کی ضرورت ہے، آپریشن ضرب عضب کی کامیابیاں جاری ہیں اور آپریشن کے زیادہ تراہداف حاصل کرلیےگئے ہیں جب کہ آپریشن کی وجہ سے ملک میں امن بحال ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سلیپرسیلز اٹھنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کو بھی ختم کردیا جائے گا اس کے علاوہ دہشت گردوں کے مالی معاونین پر بھی کام جاری ہے۔
پاک افغان سرحد بند کرنے سے متعلق ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پاک افغان بارڈر سیل کرنا ممکن نہیں، افغانستان کےساتھ جب بھی بات ہوتی ہے، بارڈر مینجمنٹ پر بھی بات ہوتی ہے، آرمی چیف نے افغان صدر کےساتھ واقعے معلومات شیئر کی ہیں اور کسی بھی مرحلے پریہ نہیں کہا گیا کہ اس میں افغان حکومت ملوث ہے۔واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے ضلع چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں 21 افراد کی شھید اور متعدد زخمی ہوئے تھے جب کہ حملے کے چاروں دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کردیا گیا تھا