عراقی خواتین کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تو 72 حوریں نہیں ملیں گی، داعش کے دہشتگرد خوف کا شکار
معروف برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے امریکی ایوانِ نمائندگان کی بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کی کمیٹی کے چیئرمین ایڈ رائس کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ عراقی کردوں کے خلاف لڑنے والے تکفیری دہشتگرد گروہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق المعروف داعش کے عسکریت پسند دہشتگرد اس خوف کا شکار ہیں کہ وہ کسی کرد خاتون کے ہاتھوں ہلاک نہ ہو جائیں۔ داعش کے دہشتگردوں کا خیال ہے کہ اگر ان کی ہلاکت کرد فورس سے وابستہ کسی خاتون فوجی کے ہاتھوں ہو گئی تو وہ جنت میں پہنچنے کے بعد 72 حوروں کے انعام سے محروم رہ جائیں گے۔ امریکی سیاستدان کا کہنا ہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے دہشتگرد جنگجوؤں کے نزدیک کسی خاتون کے ہاتھوں قتل ہونا قابلِ قبول نہیں۔ جیسے جیسے کرد فورس کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اس صورتحال میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے عسکریت پسند دہشتگردوں کی بڑی تعداد خوفزدہ دکھائی دیتی ہے کہ کردوں کے ساتھ لڑائی میں وہ کسی خاتون کی گولی کی زد میں نہ آ جائیں۔ واضح رہے کہ امریکی سیاستدان کے حوالے سے سامنے آنے والی یہ خبر پہلے بھی نیو یارک پوسٹ نے بھی شائع کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کرد فوجی خواتین اس بات پر خوشی محسوس کرتی ہیں کہ ان کی وجہ سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے جنگجوؤں کی کی پیش قدمی رُک گئی ہے۔ واضح رہے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے دہشتگردوں کا یہ عقیدہ ہے کہ شہید ہونے کی صورت میں انہیں جنت میں 72 حوریں ملیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے جنگجو کرد خواتین کے ہاتھوں ہلاک ہونے کا خطرہ مول لینے سے خوفزدہ ہیں۔
عراق میں امریکی سعودی نواز دہشتگرد گروہ داعش کیخلاف جدوجہد میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ
شمالی عراق کے پہاڑی علاقے مخمور کو تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے نام نہاد جہادیوں سے آزاد کرانے کے لیے کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے مرد اراکین کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ان خواتین نے داعش کے دہشتگردوں کے خواتین کے ساتھ سلوک کی بناء پر اس جنگ کو اپنا ذاتی مشن بنا لیا ہے۔ شمالی عراق کے پہاڑی علاقے میں کندھے پر رائفل اور بیلٹ میں موجود گرنیڈ کے ساتھ مسلح کرد خواتین کا مشن خواتین کو آزاد کرانے کی غرض سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش سے جنگ کرنا ہے۔ کرد خواتین کا کہنا ہے کہ ‘وہ اور دیگر خواتین صرف اس وجہ سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف نہیں لڑ رہی ہیں کہ وہ محض کردوں کے خلاف ہیں بلکہ ہم اس وجہ سے بھی اس جنگ کا حصہ بن رہے ہیں کیوںکہ وہ خواتین کی آزادی کے خلاف ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے لوگ اپنے زیرِاثر علاقوں میں خواتین کو مارکیٹ تک جانے نہیں دیتے اور انہیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے سروں کو ڈھانپے رکھیں’۔ کرد خواتین کے مطابق ‘تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف ان کی جدوجہد کا مقصد خواتین کو ان سے اور ان کے خود ساختہ شدت پسندانہ نظریات سے نجات دلوانا ہے’۔ مخمور کی پہاڑیوں پر کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے مرد جنگجوؤں کے ساتھ سینکڑوں کرد خواتین بھی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
‘کرد خواتین یہاں مردوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں، تاکہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کو بے دخل کیا جا سکے’۔ کرد خواتین عموماً چار چار خواتین کے گروپ کی صورت میں منظم رہتی ہیں اور ان گروپس کی کمانڈر بھی خاتون ہوتی ہے، تاہم جب لڑائی کا وقت آتا ہے تو سب بکھر جاتے ہیں اور سب مرد اور خواتین جنگجو مل کر مختلف محاذوں پر لڑتے ہیں’۔ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش سے برسرِ پیکار کرد خواتین داعش کے دہشتگردوں کے ردّعمل کے حوالے سے کہتی ہیں داعش کے دہشتگرد ہم کرد خواتین کو دوبدو لڑتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں، ہمارے خیال میں داعش کے دہشتگرد ہمارے کرد مردوں سے زیادہ ہم کرد خواتین سے خوفزدہ ہیں۔ کرد خواتین نے مزید انکشاف کیا کہ داعش کے دہشتگردوں کا ماننا ہے کہ اگر وہ کسی کرد عورت کے ہاتھوں مریں گے تو وہ دوزخ میں جائیں گے’۔