مقالہ جات

نکبہ کی 77ویں برسی: غزہ میں جاری نسل کشی نے 1948ء کے ہولناک زخم تازہ کر دیے

شیعہ نیوز: آج فلسطینی نکبہ کو 77 برس بیت چکے ہیں۔ وہ المناک دن جب 1948 میں قابض اسرائیلی افواج نے ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں، بستیوں اور زمینوں سے زبردستی نکال دیا اور انہیں خیموں، کیمپوں اور جلاوطنی کے عذاب میں دھکیل دیا۔ مگر جو کچھ آج محصور غزہ کی پٹی میں ہو رہا ہے وہ محض نکبہ کی یاد نہیں بلکہ اس کا ایک خونی اور وحشیانہ تسلسل ہے، جو 7 اکتوبر 2023ء سے امریکی اور مغربی آشیر باد اور مکمل عسکری، سیاسی اور سفارتی حمایت سے جاری وساری ہے۔ ایسا تسلسل جو نہ صرف ماضی کے زخم ہرے کر رہا ہے بلکہ انہیں کہیں زیادہ گہرائی سے دوبارہ چیر رہا ہے۔

سنہ 1948ء میں فلسطینیوں کو 500 سے زائد قصبوں اور دیہات سے نکالا گیا، جن میں سے بیشتر کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ اس وقت نسل کشی ایک منظم پالیسی کے تحت کی گئی اور آج بھی وہی پالیسی جاری ہے، بس ہتھکنڈے زیادہ مہلک ہو چکے ہیں۔ قابض اسرائیلی فوج نے جنگ کے آغاز سے اب تک سینکڑوں فوجی احکامات کے ذریعے 17 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ سے زبردستی نکال کر خیموں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں زندگی کے بنیادی لوازمات بھی ناپید ہیں۔ یہ منظر آج بھی نکبہ کے ابتدائی دنوں کی سچائی کو دہرا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : اسلام کو خطرہ یورپ کے ننگے جسموں سے نہیں علامہ آصف رضا علوی ویڈیو نے دھوم مچادی

دوہرا حملہ

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے "یو این ڈی پی” کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی ستر فیصد عمارتیں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا جزوی نقصان کا شکار ہیں۔ ان میں رہائشی مکانات، سکول، ہسپتال، پانی و بجلی کے نظام شامل ہیں ۔ وہ تمام بنیادی سہولیات جو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ یافتہ ہیں اور عالمی قوانین ان تنصیبات کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین”اونروا” جو فلسطینیوں کی مظلومیت پر بین الاقوامی گواہ ہے نے بتایا کہ ان کی 162 سے زائد تعلیمی و طبی تنصیبات یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا شدید نقصان کی زد میں آئی ہیں، حالانکہ ان کا استعمال ہنگامی پناہ گاہوں کے طور پر ہو رہا تھا۔ قابض اسرائیل اب اس دردناک تاریخ کو دہرا رہا ہے، مگر اب کی بار کہیں زیادہ بے رحم طاقت کے ساتھ، جو ہر شے کو کچل دینے پر آمادہ ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی افواج "ارض محروقہ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جس کے تحت شہری آبادیوں، رہائشی علاقوں اور بنیادی ڈھانچے کو براہِ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین اسے کھلی نسل کشی اور منظم قتل عام قرار دے چکے ہیں۔

خیمے در خیم، زخم در زخم

خیمے سے خیمے تک کی یہ ہجرت، ہاتھوں میں زنگ آلود چابیاں، زخمی بدن اور آنکھوں میں یادیں لیے ہوئے ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ نکبہ کے وقت جنہوں نے زبردستی ترکِ وطن کیا، جنہوں نے واپسی کی امیدوں کو ایک چابی میں سمیٹا، آج ان کی اولادیں انہی راہوں پر گامزن ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ اب بستیاں خالی کرنے والے صرف بزرگ نہیں بلکہ معصوم بچے اور مائیں بھی ہیں، جو خیموں میں بھوک، پیاس اور بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

سنہ1948ء سے 2023ء تک کا سفر، ہتھیار بدل چکے، مگر مقاصد وہی ہیں۔ اس وقت ہاتھ سے چلنے والے ہتھیار تھے، آج ہزاروں پاؤنڈ وزنی بم ہیں جو لمحوں میں خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ اس وقت پرانی فوجی جیپیں تھیں، آج بکتر بند گاڑیاں اور ڈرونز ہیں، جو نہ صرف جسم، بلکہ روح تک کو روند ڈالنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

غزہ میں آج ہزاروں خاندان ایسی خیمہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں صاف پانی، مناسب خوراک اور علاج معالجے کی سہولت مفقود ہے۔ بچوں اور حاملہ خواتین میں غذائی قلت اور مہلک بیماریوں کا پھیلاؤ شدید تر ہو چکا ہے۔

محاصرہ، خالص ظلم

ان سب مظالم پر مستزاد ہے غزہ کا مکمل محاصرہ ہے، قابض اسرائیل نے غزہ میں خوراک، دوا، ایندھن، سب کچھ بند کر رکھا ہے۔ رفاہی اداروں، خاص طور پر اونروا پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ یہ ادارہ جسے اقوام متحدہ نے نکبہ کے عینی شاہد کے طور پر تسلیم کیا تھا آج قابض فاشسٹ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی سیاسی یلغار کے مجرمانہ نشانے پر ہے۔ مقصد صرف ایک ہے:” حقِ واپسی کو سیاسی نقشے سے مٹا دیا جائے”۔

دیر یاسین سے غزہ تک کا قتل عام

سنہ 1948ء میں دیر یاسین کی سفاکیت وہ خونی باب تھا جس نے نکبہ کو دنیا کے ضمیر پر ثبت کر دیا۔ صہیونی دہشت جتھوں نے وہاں 100 سے زائد فلسطینیوں کو بےدردی سے قتل کر کے لاکھوں کو خوف کے سائے میں ہجرت پر مجبور کیا۔ آج وہی منظر غزہ، خان یونس، رفح، بیت حانون، بیت لاہیا، النصیرات اور دیر البلح میں دہرایا جا رہا ہے ، بلکہ اس سے بھی بھیانک شکل میں۔ اب تک 7000 سے زائد اجتماعی قتل عام کی تصدیق ہو چکی ہے اور 1500 سے زیادہ خاندان مکمل طور پر نابود ہو چکے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے عالمی ادارے کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں ہونے والے مظالم جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، مگر مغربی دنیا اور عالمی ادارے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بعض اوقات تو اسرائیلی جرائم کی تاویلیں گھڑتے ہیں۔

نکبہ ایک جاری اور مسلسل رستا زخم

آج نکبہ صرف ایک یاد نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے۔ یہ کوئی پرانا دکھ نہیں، بلکہ ایک جاری المیہ ہے۔ نسل در نسل، ہجرت در ہجرت، خیمے در خیمے، قتل عام در قتل عام فلسطینیوں کی زندگی ایک مسلسل کرب کی داستان بن چکی ہے۔

غزہ کی جامعہ ازہر کے ماہرِ سیاسیات ڈاکٹر ناجی شراب کے مطابق اسرائیل نکبہ کو ایک دائمی حالت میں تبدیل کر چکا ہے اور 1948ء سے جاری زبردستی نقل مکانی کی پالیسی اس کا واضح ثبوت ہے۔ ان کے مطابق سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اب اسرائیل نہ صرف زمین، القدس اور مہاجرین کا قضیہ ختم کرنا چاہتا ہے، بلکہ فلسطینیوں کو محض چند افراد کے ایک گروہ کی شکل دینا چاہتا ہے، جنہیں صرف کھانا، پانی اور دوا درکار ہو نہ کہ کوئی سیاسی حق یا قومی شناخت۔

شراب نے اس بات کی نشاندہی کی کہ آج قابض اسرائیل نہ صرف "اونروا” جیسے اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بلکہ اوسلو معاہدے جیسے سمجھوتے بھی عملی طور پر کالعدم ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیل کا ہدف یہ ہے کہ فلسطینی مسئلہ محض ایک انسانی بحران کی شکل میں رہ جائے، جس کی اصل بنیاد حقِ واپسی، آزادی، خودمختاری کو مکمل طور پر دفن کر دیا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ نکبہ کی یاد محض ایک سالانہ روایت نہیں بلکہ زندہ جدوجہد ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے یہ قومی فریضہ ہے، اور عالمی ضمیر کے لیے ایک مستقل آزمائش۔ فلسطینی قوم مسلسل آٹھ عشروں سے اس اذیت سے گذر رہے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ عالمی ادارے، بین الاقوامی قوانین اور عالمی برادری بے حسی سے دوچار ہیں۔ عالم عرب مغرب کے غلام بن چکے ہیں جب کہ مسلمان ممالک کی باہمی رسا کشی غاصب صہیونی دشمن کو فائدہ پہنچا رہی ہے اور فلسطینی قوم کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button