دنیا

غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے دوران 7,820 لاشیں بخارات میں تحلیل ہوگئیں

شیعہ نیوز: غزہ کی پٹی میں سول ڈیفنس نے 7,820 شہداء کی لاشوں کا ریکارڈ مرتب کیا جنہیں پٹی میں اسرائیلی بمباری سے نشانہ بنایا گیا۔ سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں مکمل یا جزوی طور پر بخارات میں تحلیل ہوچکی ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے جاری صہیونی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں ان شہداء کا تناسب 10 فیصد ہے۔

سول ڈیفنس نے جمعہ کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران ایسے مہلک اور ممنوعہ ہتھیاروں کا اندھا دھند استعمال کیا جس کے نتیجے میں شہداء کی لاشوں کی بڑی تعداد پگھل کر ختم ہوگئی۔ اس کے علاوہ قابض فوج نے نشانہ بنائے گئے علاقوں پرمہک بم برسائے اور "زندہ لوگوں اور زخمیوں کا ایسے مہلک بموں سے قتل عام کیا۔

یہ بھی پڑھیں : امریکہ: لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ سے 11 افراد ہلاک

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے 10 فیصد واقعات میں شہداء کی لاشوں کے کچھ حصے بخارات بن جاتے ہیں، کیونکہ سول ڈیفنس کا عملہ بمباری کی جگہوں سے بہت سی لاشیں مکمل طور پر غائب ہونے کی وجہ سے نکالنے میں ناکام رہا یا ان کے صرف چھوٹے حصے باقی رہ گئےتھے۔ باقی تمام جسم تحلیل ہوچکا تھا۔

سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ نشانہ بنائے گئے مقام کے قریبی علاقوں میں موجود افراد کی لاشیں بخارات میں اُڑ جاتی ہیں، جب کہ دیگر افراد یا تو دھماکے کی طاقت کے نتیجے میں یا پھر دھماکے کی شدت سے عمارتوں کے منہدم ہونے کے نتیجے میں شہید ہو جاتے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البراش نے کہاہے کہ اکتوبر 2023ء میں غزہ کی پٹی پر جارحیت کے پہلے دن سے غاصب اسرائیلی فوج مہلک ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے بم جب پھٹتے ہیں تو بہت زیادہ درجہ حرارت پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے شہداء کی لاشیں ان کی جگہوں پر بخارات بن جاتی ہیں۔

البرش نے نشاندہی کی کہ ان مہلک ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی سطح پر ممنوع ہے۔ ان میں بہت زیادہ تباہ کن خصوصیات اور بھاری وزنی بم ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کا استعمال بے گھر افراد کے خیموں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسے بم مضبوط عمارتوں کو بھی راکھ میں بدل دیتے ہیں۔ ایسے مہلک گولہ بارود سے شہید ہونے والوں کا کیا حشر ہوگا؟

البرش نے نشاندہی کی کہ متعدد قتل عام میں استعمال ہونے والے بموں میں سے کچھ جن میں سیکڑوں افرادشہید ہوئے، ان میں دھماکے کا درجہ حرارت 4,000 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تھا، جیسا کہ اگست 2024ء میں التابعین اسکول شیلٹر سینٹر میں "فجر کی نماز میں قتل عام” میں ہوا تھا۔ جس میں سینکڑوں لوگوں کو جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ ایسا ہولناک قتل عام تھا کہ بہت سی لاشیں ختم ہوگئیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

امریکی حمایت سے غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے نتیجے میں 155,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ 11,000 سے زیادہ لاپتہ ہو ہوچکے ہیں۔

اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلانٹ کے خلاف 21 نومبر کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے دو وارنٹ گرفتاری کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button