دہشت گردوں کو سزائیں ملیں تو فرقہ واریت ختم کی جاسکتی ہے، شاہ اویس نورانی
شیعہ نیوز (لاہور) جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل شاہ اویس نورانی نے کہا ہے کہ علمائے کرام نے قیام پاکستان سے قبل بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے جدوجہد کی ہے، پاکستان میں فرقہ واریت کی صورتحال اس وقت بھی ایسی نہیں ہے جیسی دوسرے مسلم ممالک میں ہے،پاکستان میں 1986ء سے 1989ء کے دوران فرقہ واریت کو عروج حاصل ہوا جس کے خاتمے کیلیے علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم نے ملی یکجہتی کونسل کی بنیاد رکھی جس کے بعد فرقہ واریت پر کنٹرول حاصل ہوا۔ بعدازاں متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں لایا گیا اس کا مقصد بھی فرقہ واریت کو کنٹرول کرنا تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے روزنامہ ایکسپریس کے فورم میں دیگر مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ شاہ اویس نورانی کا کہنا تھا کہ ہمیں ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ایک ایک لفظ پر دوسرے کو قتل کررہے ہیں یا قتل کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ میرے والد علامہ شاہ احمد نورانی نے کبھی لسانی، سیاسی، مذہبی فکر میں امتیاز نہیں برتا، کسی بھی مذہب یا مکتب فکر کے لوگوں سے ملنا جلنا منع نہیں، اختلافات کو مل بیٹھ کر ہی طے کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ فسادی اور فاشسٹ لٹریچر کی اشاعت اور اس کی تقسیم پر سرکاری سطح پر پابندی ہونی چاہیے، یہی فساد کی اصل جڑ ہے اور اس کی روک تھام میں حکومت کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ نفرت پھیلانے والے، تنگ نظری اور منافرت پر مبنی لٹریچر اور اسے پھیلانے والوں کو نہ روکا گیا تو صورتحال بہت خراب ہوجائے گی۔ مذہبی بنیاد پر اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اس وقت ایک تہذیب بھی ہوتی تھی آج یہ کونسی قوت ہے جو معمولی معمولی بات پر قتل کو تیار بیٹھی ہے، درحقیقت یہ تیسری قوت ہے جو مغربی ایجنڈے پر گامزن ہے۔ ایک سوال پر شاہ اویس نورانی نے کہا کہ اگر فرقہ واریت کا زہر ہماری رگوں میں ہوتا تو آج سارے علمائے کرام ایک جگہ موجود نہیں ہوتے، فرقہ واریت ٹاپ لیول پر نہیں بلکہ نچلی سطح پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج ایک طرف علامہ عباس کمیلی کے بیٹے کو تو دوسری طرف مفتی محمد نعیم کے داماد کو شہید کردیا جاتا ہے، یہ کونسی قوت ہے جو جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام اپنے لوگوں کو کنٹرول کریں، معاملات صرف چند لوگ بگاڑ رہے ہیں ورنہ تو ہر مکتب فکر کے لوگ ایران و عراق بھی جاتے ہیں اور سعودی عرب کا بھی رخ کرتے ہیں۔